• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان فلم انڈسٹری کو اِن دنوں سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے، بلکہ جو فلم ساز ان حالات میں فلمیں بنا رہے ہیں، انہیں بھی سنسر بورڈ کے ذریعے تنگ کیا جاتا ہے اور جن فلم سازوں نے پاکستان فلم انڈسٹری سے لاکھوں، کروڑوں روپے کمائے، وہ اسے تنہا چھوڑ کر خاموش بیٹھے ہیں۔ ان میں فلم پروڈیوسر فضہ علی مرزا، ہمایوں سعید، یاسر نواز، حسن ضیاء وجاہت رؤف، مومنہ ورید و دیگر شامل ہیں۔ یہ سب کیوں فلمیں نہیں بنا رہے ہیں، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، ایسے بدترین حالات میں کچھ نئے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کام کر رہے ہیں ، لیکن ان کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ ان کی فلمیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ سنیما والے بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، ایسے حالات ہوں گے، تو انڈسٹری کی بہتری کے لیے کون سامنے آئے گا۔

مایوسی کے گُھپ اندھیرے میں اب کچھ اُمید کے چراغ روشن ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کچھ مخلص لوگ انڈسٹری کو بچانے کے لیے نِت نئے تجربات کر رہے ہیں کہ شاید انڈسٹری ماضی کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے ۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں 75برسوں میں پہلی بار ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے کہ ایک ٹکٹ میں تین فلمیں دکھائی جائیں گی اور وہ فلمیں بھی کوئی عام فن کاروں اور ڈائریکٹرز کی نہیں ہوں گی، بلکہ اسے صف اول کے لکھاریوں نے لکھا ہے اور شہرت یافتہ ڈائریکٹرز اور دِلوں پر حکم رانی کرنے والے فن کاروں نے اپنے فن کا جادو جگایا ہے۔ 

دُنیا بھر میں تو یہ ہوتا رہا ہے کہ ایک ٹکٹ میں تین فلمیں دکھائی جاتی ہیں، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان میں یہ تجربہ کتنا کام یاب ہوگا۔ سی پرائم کے تحت فلم ساز سیمیں نوید نے ’’تیری میری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے تین فلمیں بنائی ہیں، ان فلموں کے لیےِ صف اول کے ڈائریکٹر اور فن کاروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان تین فلموں میں شامل نامور ہدایت کار ندیم بیگ، جن کے کریڈٹ پر ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘، ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ جیسی سپرہٹ فلمیں ہیں، ان کی ڈائریکشن میں جیو کے سپرہٹ ڈرامے ’’تیرے بِن‘‘ کے مقبول ہیرو وہاج علی اور سپر اسٹار مہوش حیات پردہ اسکرین پر جلوہ گر ہوں گے۔ وہاج علی نے ’’تیرے بِن‘‘ میں کمال کی اداکاری کرکے ناظرین کے دِل جیت لیے ہیں۔ وہ ان دنوں شہرت کے ساتویں آسمان کو چُھو رہے ہیں، ان کے مدِمقابل مہوش حیات ہوں گی، جو کئی سپر ہٹ فلموں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں، انہیں سب سے زیادہ مقبولیت ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ سے حاصل ہوئی۔

سوشل میڈیا پر وہاج علی اور مہوش حیات کی جوڑی کے بہت چرچے ہیں۔ دوسری جانب نوجوان ہدایت کار نبیل قریشی نے بھی اپنی ٹیم میدان میں اتاری ہے، ان کی فلم میں کام یاب فلم ’’گھبرانہ نہیں ہے‘‘ سے فلم کا ڈیبیو کرنے والے زاہد احمد اور ان کےمدِمقابل سپرماڈل اورداکارہ آمنہ الیاس ہوں گی۔ 

زاہد احمد نے ’’گھبرانہ نہیں ہے‘‘ میں پولیس انسپکٹر کے کردار میں عمدہ پرفارمنس دی تھی، ان کے سامنے تجربہ کار صبا قمر تھی، اس کے باوجود بھی انہوں نے فلم بینوں کی بھرپور توجہ حاصل کی تھی۔ زاہد احمد کی نئی ہیروئین آمنہ الیاس کو بھی تین چار فلموں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے ثاقب ملک کی کام یاب فلم ’’باجی‘‘ میں اداکارہ میرا کے سامنے ڈٹ کر اداکاری کی اور انہیں لاجواب پرفارمینس سے میڈیا کی توجہ اور فلم بینوں کے دِل جیت لیے تھے۔ اب زاہد احمد اور آمنہ الیاس کی جوڑی کیا رنگ لاتی ہے، اس کا فیصلہ چند دِنوں بعد ہو جائے گا۔

تیسری فلم کی ڈائریکٹر مرینہ خان ہیں، وہ پہلی مرتبہ کسی فلم کی ڈائریکشن دے رہی ہیں۔ مرینہ خان نے پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کرکے خُوب شہرت حاصل کی۔ وہ شوبزنس انڈسٹری میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ فلم کی ڈائریکشن میں کتنی کام یاب ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی فلم کی ہیروئن رمشا خان ہیں، جو کئی ڈراموں میں اپنی لا جواب اداکاری کی وجہ سے ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہی ہیں۔ رمشا خان کو فلم بین پہلی بار پردہ اسکرین پر دیکھیں گے۔ ان کے ساتھ شہریار منور بہ طور ہیرو ہوں گے۔ 

شہریار منور نے دوچار فلموں میں کام کیا ہوا ہے، انہیں ماہرہ خان کے ساتھ ’’ہومن جہاں‘‘ اور مایا علی کے ساتھ فلم ’’پرے ہٹ لو‘‘ میں بے حد پسند کیا گیا۔ ان کی جوڑی کو فلم بین کتنی پذیرائی دیتے ہیں، اس کا فیصلہ فلم ریلیز ہونے کے بعد معلوم ہوگا۔ ڈراموں کی مشہور اداکارہ حرا مانی اور ان کے شوہر مانی پہلی بار کسی فلم میں ایک ساتھ نظر آئیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلم بینوں کی توچاندی ہوگئی ہے۔ ایک ٹکٹ میں تین فلمیں، مہوش حیات، وہاج علی، زاہد احمد، آمنہ الیاس، شہریار منور، رمشا خان اور حرا مانی کی شان دار پرفارمنس ایک ساتھ دیکھ سکیں گے۔ ’’تیری میری کہانیاں‘‘ کی موسیقی کے لیے بھی معروف موسیقاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور مشہور گلوکاروں سے پِلے بیک سنگنگ کروائی گئی ہے۔

فن کاروں اور ڈائریکشن کے بعد ان تین فلموں کے اسکرپٹس پر بھی بات کرلیں۔ ان فلموں کے لیے خلیل الرحمٰن قمر سے بھی ایک کہانی لکھوائی گئی ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر کے کریڈٹ پر کئی کام یاب فلمیں اور ڈرامے ہیں، انہیں سب سے زیادہ شہرت ’’میرے پاس تم ہو‘‘ ڈرامے سے ملی، لیکن ان کی لکھی ہوئی فلم ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ نے بھی باکس آفس پر خُوب دھوم مچائی۔ دوسری فلم کی کہانی واسع چوہدری نے لکھی ہے، جو ’’میں ہُوں شاہد آفریدی‘‘ جیسی کام یاب فلم لکھ چکے ہیں اور تیسری کہانی، علی عباس نقوی اور باسط نقوی نے لکھی، جو لال کبوتر جیسی بین الاقوامی فلم لکھ کر خُوب نام کما چکے ہیں۔

فلم کی پروڈیوسر سیمیں نوید کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ تین فلمیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لیے بنائی تھیں، لیکن شوبزنس انڈسٹری کا شان دار رسپانس ملنے پر ہم نے اسے سنیما گھروں کی زینت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں بہت اُمید ہے کہ فلم بین اس نئے تجربے کو بے حد پسند کریں گے۔ یہ فلمیں بڑی عید کا بڑا تحفہ ثابت ہوں گی۔‘‘یہ فلم ڈسٹری بیوشن کلب کے تحت سنیماؤں گھروں میں ریلیز کی جائے گی۔ 

پاکستان فلم انڈسٹری سے جُڑے ہنرمندوں، فلم سازوں اور سنیما مالکان کو اس نئے تجربے کو کام یاب بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہم نئے آنے والوں کے لیے آسانیاں کم اور مسائل زیادہ پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انڈسٹری کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنی پالیسی کو بدلنا ہوگا۔ تاکہ علی ظفر، بلال لاشاری، عاصم رضا، جیسے کام یاب فلم میکر ایک مرتبہ پھر سامنے آئیں اور سال میں دوچار فلمیں ریلیز کرلیں۔ اگر ایسا ہوگا تو حالات بدل جائیں گے، ورنہ سنیما گھروں میں سناٹا ہی رہے گا۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید