• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکار پور پولیس کا کارنامہ، محکمے کا سر فخر سے بلند کردیا، ہر طرف اس کی کام یابی کی دُھوم ہے۔ ہر طرف ایس ایس پی امجد احمد شیخ کی بہترین پیشہ ورانہ قائدانہ صلاحیتوں کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ نے بھی اس بہترین کارگردگی کو زبردست انداز میں سراہا، ضلع کشمور کے شہر کندھ کوٹ سے اغوا ہونے والے ایک تین سالہ معصوم بچے کو 8 روز بعد کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے چنگل سے باحفاظت آزاد کرا کر مغوی بچے کے گھر کی دہلیز پر بیٹے کے انتظار میں ٹکٹکی لگائے بیٹھی ایک دکھیاری ماں کی جھولی میں اس کے مغوی معصوم بچے کو بٹھا دیا، 3 سالہ سمرت کمار کو ایس ایس پی شکارپور امجد احمد شیخ نے ایک کام یاب ٹارگیٹڈ آپریشن کے بعد بازیاب کرا کر اپنی گود میں بٹھایا اور گاڑی میں سوار ہوکر شکارپور سے کندھ کوٹ کے لیے چل دیے۔ 

تین سالہ بچے کی بازیابی کی اطلاع پر بڑی تعداد میں اقلیتی برادری کے ساتھ شہری استقبال کے لیے کندھکوٹ میں جمع ہوگئے، جیسے ہی آپریشن کمانڈر ایس ایس پی کندھ کوٹ کی حدود میں داخل ہوئے، شہریوں نے ان پر پھولوں کی پتیوں کی بارش کردی اور ان کے حق میں نعرے بلند کیے، انہیں ایک بڑے جلوس کی صورت میں مغوی بچے کے گھر لے جایا گیا ۔ تمام راستے سڑک کے کنارے اور گاڑیوں کے آگے اور پیچھے لوگوں کا ہجوم تھا، گاڑیوں کا قافلہ بازیاب ہونے والے بچے سمرت کمار کو لے کر اس کے گھر پہنچا تو بچے کی ماں اور باپ اپنے لخت جگر کو دیکھ کر خوشی سے دیوانے ہوگئے، ماں کی ممتا جو 8 روز سے غم سے نڈھال ٹکٹکی لگائے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کب اس کا معصوم بچہ گھر آئے گا اور ماں کے گلے لگے گا، ماں، بیٹے کو گود میں لے کر پیار کرتی رہی اور بڑی تعداد میں لوگ ایک بڑے ہال میں جمع ہوگئے، جہاں بچے کے اہلِ خانہ رشتے داروں شہریوں نے خوب جشن منایا اور فضاء آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور ایس ایس پی شکارپور امجد احمد شیخ کے حق میں فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی، جیسا شان دار استقبال کیا گیا ،سندھ میں شاید کسی پولیس افسر کا اتنا بڑا استقبال ہوا ہو۔ 

یہ پہلا موقع تھا کہ رات کے وقت کسی پولیس افسر کا عوام کی اتنی بڑی تعداد نے تاریخی اور والہانہ استقبال کیا ہو، بچے کی بازیابی کا سوشل میڈیا پر بھی ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، لوگوں نے آئی جی سندھ اور ایس ایس پی شکارپور کو دل کھول کر مبارک باد کے پیغام دیے اور مغوی بچے کی بازیابی سے پہلے کندھ کوٹ سمیت دیگر علاقوں میں جو لوگ سراپا احتجاج تھے، ان کا احتجاج جشن میں بدل گیا اور ہر طرف پولیس کی کام یابی کے تبصرے زد عام تھے۔

اب اگر بات کی جائے پولیس کی ڈاکوؤں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام کے حوالے سے تو کشمور سے لے کر گھوٹکی تک تیار کی گئی پولیس کی حکمتِ عملی اور کچے میں چوکیوں کے قیام کے بعد ان اضلاع میں اغوا کی ہنی ٹریپ کے واقعات دم توڑ گئے ہیں، لیکن ڈاکووں نے اب کچے سے نِکل کر اغوا برائے تاوان کی فزیکل وارداتیں انجام دینا شروع کردی ہیں، خاص طور پر ضلع کشمور بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور اغوا برائے تاوان کی پے در پے وارداتوں نے پولیس کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ چند روز قبل کندھ کوٹ کے مرزا محلے سے نامعلوم مسلح ملزمان 3 سالہ سمرت کمار کو اغوا کرکے لے گئے جس کے بعد بچے کی بازیابی کے لیے کشمور پولیس نے کوششیں کیں اور علاقے کی ناکہ بندی کی گئی، لیکن مغوی بچے کا سراغ نہ مل سکا، اسے کچے میں ڈاکوؤں اغوا کاروں کے کس گروپ نے اٹھایا ہے۔ 

بچے کی عدم بازیابی پر کندھ کوٹ میں اقلیتی برادری شہر کے تاجروں اور سول سوسائٹی نے کراچی پشاور انڈس ہائی وے پر دھرنا دیا، شہر میں شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی، احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کئے گئے اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ بچے کے اغوا کے معاملے کو اٹھایا گیا اور احتجاج کندھکوٹ کے ساتھ سندھ کے دیگر شہروں تک بھی جا پہنچا، اس دوران سوشل میڈیا پر ایک بچے کی دونوں ہاتھ بندھے بڑی مشکل میں کھانا کھانے کی وڈیو وائرل ہوئی اور بتایا گیا کہ یہ مغوی بچہ ہے، جس نے تمام دیکھنے والوں کو نہ صرف پریشان، بلکہ غم زدہ کردیا اور لوگوں نے حکومت، اعلیٰ حکام سے نوٹس لےکر بچے کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔ 

خبریں میڈیا پر آنے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس احمد علی شیخ نے واقعہ کا نوٹس لے کر دو روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ تین سالہ بچے سمرت کمار کی عدم بازیابی پر سکھر جیکب آباد سمیت دیگر علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور احتجاج کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے آئی جی سندھ ، غلام نبی میمن نے فوری طور پر سینئیر ترین پولیس افسر ایس ایس پی شکارپور امجد احمد شیخ کو مغوی بچے کو جلد از جلد باحفاظت بازیاب کرانے کا ٹاسک دیا اور ہدایات دیں کہ مغوی بچے کی بازیابی کے لیے کوششیں کریں ، جتنی جلدی ممکن ہو سکے، بچے کو باحفاظت بازیاب کرایا جائے۔ 

آئی جی سندھ اس تمام صورت حال کو خود مانیٹر کررہے تھے ۔ ان احکامات کے بعد ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے پولیس کی مختلف ٹیمیں تشکیل دیں۔ ان ٹیموں کی سربراہی وہ خود کررہے تھے۔ ان ٹیموں میں پولیس کمانڈوز کے ساتھ ایک ٹیم آئی ٹی ماہرین کی بھی بنائی گئی، تاکہ مغوی بچے کا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سراغ لگایا جاسکے، پولیس ٹیموں نے مختلف زاویوں سے بچے کے اغوا کی واردات کا جائزہ لیا اور بچے کا سراغ لگانے کے لیے اپنا نیٹ ورک پھیلایا اس دوران 48 گھنٹوں میں پولیس نے شکارپور اور کندھ کوٹ کچے کے علاقوں میں متعدد کاروائیاں کیں۔ 

مغوی بچے کا سراغ لگانے کے لیے خفیہ نیٹ ورک بھی بچھایا گیا ، پولیس دن رات مغوی کی بازیابی میں مصروف عمل دکھائی دی اور متعدد مقامات پر ٹارگیٹڈ آپریشن کئے گئے۔ اس دوران شکارپور پولیس نے اپنی بہتر اور موثر حمکت عملی اور بچھائے گئے نیٹ ورک کے ذریعے مغوی بچے سمرت کمار کا سراغ 48 گھنٹوں میں لگایا ، پولیس کو اطلاع ملی کہ مغوی بچے کو گڑھی تیغو کچے کے علاقے میں رکھا گیا ہے، جہاں سے اسے اب کسی اور مقام پر منتقل کیا جارہا ہے، جس پر پولیس جو پہلے ہی متحرک تھی، اس نے فوری اور بروقت کارروائی کرتے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف کام یاب ٹارگٹڈ آپریشن کیا اور تین سالہ مغوی بچے کو باحفاظت بازیاب کروالیا، مغوی بچے کی بازیابی شکارپور و سندھ پولیس کی بڑی کام یابی سمجھی جارہی ہے، کیوں کہ معصوم بچے کے اغوا کی واردات کےخلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا، جو لوگ پہلے پولیس کےخلاف احتجاج کررہے تھے، وہ اب پولیس کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور پولیس افسران کی دلیری و بہادری اور بہتر و عمدہ حکمت عملی کو سراہا رہے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید