• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم خیال ججز کے فیصلوں کے تسلسل میں ریاستی اداروں میں مداخلت کا پیٹرن ہے، معاون خصوصی

لاہور(نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ہم خیال ججز کے فیصلوں کے تسلسل سے ریاستی اداروں میں مداخلت کا پیٹرن نظر آرہا ہے کہ جیسے وہ کسی مخصوص سیاسی دھڑے کی طرف کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں،عدلیہ ریاست کےتابع ، کوئی بھی فردِ واحد نہ اپنے ادارے پر حاوی ہو بلکہ کسی دوسرے ادارے میں بھی مداخلت نہ کرسکے، عدالت میں کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ہم ریاست، آئین اور سب سے اوپر ہیں، خدارا یہ ججز صاحبان اپنی سوچ کو آئین و قانون کی تعظیم اور ریاست سے وفاداری میں ڈھالیں ،اگر وہ چاہ رہے ہیں کہ پارلیمان ان سے پوچھے کہ کیا قانون بنانا ہے تو کل کو پارلیمان اور حکومت بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ جو اہم کیسوںمیں فیصلے دیتے ہیں ان میں ہم سے بھی پوچھ لیا کریں،ہم سپریم کورٹ کے ساتھ ہیں اور صرف اس مخصوص ہم خیال گروہ کے ساتھ نہیں جو خود عدلیہ کیساتھ نہیں ہے،یہ زعم ہونا کہ آئین ہمیں دستک دے رہا ہے اور ہم آئین سے بڑے ہیں یہ سوچ آئین کے منافی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل اس وقت مفلوج ہے ۔ گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ملک کی معیشت بھی انہی تنازعات کی وجہ سے مشکلات کاشکار ہے اور ملک کی ترقی بھی انتہائی سست رفتار ہے ہم نے بھی دل بڑا کیا ہوا ہے حالانکہ کچھ ججز کی جانب سے خلاف ورزیاں کی گئیں لیکن ہم ان کی عزت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی عزت ہو۔ تمام ریاستی ادارے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں اور کوئی بھی فردِ واحد نہ اپنے ادارے پر حاوی ہو بلکہ کسی دوسرے ادارے میں بھی مداخلت نہ کرسکے۔عرفان قادر نے کہا کہ پاکستان کے تمام لوگ خواہ اقتدار میں ہوں یا نہیں ان کا سب سے پہلا فرض ریاست سے وفادار رہنا ہے اس کے بعد آئین و قانون کے تابع رہنا اور اس کے بعد اداروں کو اپنی حدود و قیود میں کام کرنا ہے۔حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ میں دہراؤں کہ ریاست کیا ہے تو پاکستانی آئین کے مطابق ریاست وفاقی حکومت، پارلیمان، صوبائی حکومتیں، صوبائی اسمبلیاں اور تمام وہ ادارے جو مقامی ٹیکس، مقامی اختیار رکھتے ہیں وہ تمام ریاست کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لیکن آج ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند مخصوص لوگ جن کے لیے ’ہم خیال‘ کا لفظ استعمال ہورہا ہے، ان کے فیصلوں میں ایسا پیٹرن نظر آرہا ہے اور اس ترتیب سے وہ ریاستی اداروں میں مداخلت کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ کسی مخصوص سیاسی دھڑے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔عرفان قادر نے کہا کہ یہ وہ سیاسی دھڑا ہے جو چند روز قبل ریاستی اداروں بشمول افواجِ پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کے اپنے لوگوں نے ساتھ چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے، اس کے باوجود ابھی بھی چند ہم خیال جج صاحبان اپنے فیصلوں سے اس دھڑے کی طرف نرم گوشہ رکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں، مختلف اہم مقدمات کی سماعت میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون سازی میں پہلے ہم سے مشاورت کیوں نہیں کرلی جاتی۔ ریاست کا پہلا اور اہم جزو حکومت ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ پوری ریاست ان کی جوابدہ ہے جبکہ آئین کہتا ہے کہ سب کی پہلی وفاداری ریاست کے ساتھ ہے۔عرفان قادر نے کہا کہ آئین و قانون سے کوئی بڑا نہیں، ایسا زعم ہونا کہ آئین ہمیں دستک دے رہا ہے اور ہم آئین سے بڑے ہیں، یہ سوچ غیر آئینی ہے اور کوئی بھی اس طرح کی سوچ رکھے گا تو پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے کہ بآور کرائے کہ یہ سوچ آئین کے منافی ہے۔ ہم سب آئین کے تابع ہیں، ہم آئین سے بڑے نہیں ہیں۔

اہم خبریں سے مزید