• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اور IMF پروگرام ضروری، ایکسپورٹ بڑھائے اور امپورٹ کم کئے بغیر گزار نہیں، ٹیکس نیٹ میں اضافہ ناگزیر، نجکاری سے سیاسی عدم استحکام، جیو پر گریٹ ڈیبیٹ

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز نے معیشت کو درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے گریٹ ڈیبیٹ ’’پاکستان کیلئے اس بار کر ڈالو!‘‘ کا اہتمام کیا۔

 میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہرین نے کہا کہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے.

ایکسپورٹ بڑھائے اور امپورٹ کم کئے بغیر گزارا نہیں ، ٹیکس نیٹ میں اضافہ ناگزیر ہے ، نجکاری سے سیاسی عدم استحکام ہو ڈیفالٹ کا خطرہ ہو تو ایسے میں نجکاری کیسے ہوگی، پلان بی اور سی نہیں سوچنا چاہئے.

 ڈیفالٹ ہونے سےمہنگائی 70 فیصد تک پہنچ جائے گی ، بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانا ہوگا۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ; آئندہ مالی سال 25ارب ڈالر درکار ہونگے، قرض رول اوور ہو اتب بھی 15؍ ارب چاہئے ہونگے، یہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ممکن نہ ہوگا،آئی ایم ایف کا نیا پروگرام لینا ہوگا، نہ لیا تو ڈیفالٹ کا خدشہ ہوگا۔

 اصلاحاتی کمیشن کے چیئرمین اشفاق تولہ نے کہا کہ ملک ڈیفالٹ کی صورت سے نکل آیا۔ پنجاب بینک کے سی ای وی اور صدر ظفر مسعود نے کہا کہ ریگولیٹرز کو تگڑا کرکے نجکاری کریں ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 43 ارب سے 25ارب ڈالر تک آگیا خسارہ کم کریں تو ڈیفالٹ سے بچ سکتے ہیں ۔ اینگرو کارپوریشن کے سی ای او غیاث خان نے کہا کہ ہرسال 10؍ ارب ڈالر کی خوراک درآمد کرتے ہیں خوراک کے درآمدی بل کو کم کرنا ہوگا۔

لکی سیمنٹ کے سی ای او علی ٹبا نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے بغیر گزارا نہیں ہوگا، نجکاری کیلئے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کرلیں۔

 عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب نے کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اسکیم فعال کریں ، بیرون ملک پاکستانیوں کو ترغیب دیں، 2،2لاکھ ڈالر لائیں تو انھیں سیویئر کا ٹائٹل دیں گاڑی لانے پر ڈیوٹی میں رعایت دیں ۔

معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے کہا کہ پراپرٹی کو فیئر ویلیو پر لے آئیں۔ٹاپ لائن سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل نے کہا کہ قرض پروگرام نہ لیا تو ڈیفالٹ کا امکان ہے ۔

ماہر معاشیات علی حسنین نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ اور فرٹرلائزر پر ٹیکس لگایا جائے۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان شہزاد اقبال نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اس وقت برے حالات سے گزر رہی ہے مشکل حالات ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اس وقت جو پاکستان کے معاشی حالات ہیں اس سے برے حالات پہلے نہیں دیکھے گئے ہیں۔

حالات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف بھی پاکستان کو قرض دینے کے لئے سخت شرائط رکھ رہا ہے۔شرائط پاکستان نے تقریباً مکمل بھی کرلی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان اب تک قرض نہیں دے رہا ہے ہمارا پروگرام بحال نہیں ہوا ہے۔گریٹ ڈیبیٹ میں ہم اپنا پینالسٹ کے سامنے تین سوالات رکھیں گے اور اس پر جامع بحث کریں گے۔ سب سے پہلے تو یہ بات ہوگی کہ اگر آئی ایم ایف کے پاس پاکستان نہیں جاتاآئی ایم ایف کی عدم موجودگی رہتی ہے تو پاکستان ڈیفالٹ سے کیسے بچے گا۔ہمارا آج کا دوسرا سوال یہ ہوگا کہ ہر شعبے کو ٹیکس نیٹ میں کیسے لایا جائے اور ہر آمدن پر برابر ٹیکس کیسے لگایا جائے؟ہمارا تیسرا سوال وہ پاکستان کے اسٹیٹ اون انٹرپرائزز کے حوالے سے ہے ۔سرکاری اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، بجلی بنانے اور تقسیم کرنے والی کمپنیاں ہیں ان کی نجکاری کیسے ممکن بنائی جائے؟ علی ٹبا(سی ای او، لکی سیمنٹ)…ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہم آئی ایم ایف میں جاتے کیوں ہیںجب آپ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا ہے آپ کے پاس ڈالرز نہیں ہوتے۔ پھر آپ ملٹی لیٹرل میں بھی جاتے ہیںکمرشل بینکوں میں بھی جاتے ہیں باؤنڈ مارکیٹ میں بھی جاتے ہیں۔

 بین الاقوامی6 ،7 فیصد پر چل رہا ہے پاکستان جیسا ملک اگر عالمی سطح پر ادھار لینے جاتا ہے بانڈز یا کمرشل بینکوں سے وہ12,13 فیصد ہے جوپاکستان کے لئے پائیدار نہیں ہے۔ہم اپنی برآمدات کو ترجیحی بنیادوں پرسیٹ نہیں کریں گے اور ہمیشہ قرض لیتے ہوئے گزاریں گے یہ گزارہ نہیں ہوسکتا۔اگر آپ آج آئی ایم ایف پروگرام میں چلے بھی جاتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو آپ کا درآمدی بل ہے یا آپ کا کرنٹ اکاؤنٹ ہے وہ آپ دوبارہ خسارے میں چلے جائیں گے۔

پاکستانی حکومت کواس مرتبہ سر جوڑ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگایہ ہمارا آخری پروگرام ہونا چاہئے۔ یہ آخری پروگرام جب ہوگاجب آپ کا ایکسپورٹ ہر سال آہستہ آہستہ بڑھتا رہے اور امپورٹ آپ نے اتنا ہی کرنا ہے جتنی آپ کی ایکسپورٹ ہونی ہیں۔

اینکر شہزاد اقبال…آپ کو لگتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ملتاتو آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ سکتا ہے اور اگر بچ سکتا ہے تو کیسے؟علی ٹبا : یہ تو حکومت کو پتہ ہے کہ کیا ان کے پاس کوئی bilateral options موجود ہیںجس سے وہ قرضہ لے کر اپنے ڈیفالٹ سے بچ سکتے ہیں۔اگر ہمارے پاس وہ options نہیں ہیں ہمارے اس تو آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں۔

ڈیفالٹ کہنا بڑا آسان ہے مگر اس کے جونتائج ہیں آج پاکستان میں 35 فیصد مہنگائی ہے ڈیفالٹ کے بعد یہ70فیصد پر چلی جائے گی کرنسی آپ کی ڈی ویلیو ہوجائے گی۔آپ ایسے چکر میں پھنس جائیں گے جس سے نکلنے کے لئے پاکستان کو بہت وقت لگے گا۔

آئی ایم ایف کی ترکیب کیا ہوتی ہے آپ اپنے امپورٹ کو کم کریں شرح سود کو بڑھائیں کرنسی کو ڈی ویلیو کریں ۔جب کرنسی کو آپ ڈی ویلیو کریں گے تو افراط زر تو آنی ہے۔

اینکر شہزاد اقبال…پاکستان کو اگر bilateral قرض مل جائے توہی پاکستان ڈیفالٹ سے بچ سکے گابصورت دیگر آئی ایم ایف آخری آپشن ہے۔ غیاث خان (سی ای او اینگرو کارپوریشن)…اگر آپ اس وقت پاکستان کاexternal debt to export ریشو دیکھیں تو وہ اس وقت تقریباً400 فیصد کے قریب ہے ۔ اگر آپ اوسطاً یہ فیصد دیکھیں ان ملکوں کی جہاں پر ڈیفالٹ ہوا ہے وہ تقریباً350 فیصد ہے۔

 اگر آپ پاکستان کا external debt to GDP ریشو دیکھیں جو تقریباً40 فیصد ہے ان ملکوں کو دیکھیں جہاں پر ڈیفالٹ ہوا ہے تو وہ بھی 40 کے لگ بھگ ہیں۔اگر آپ ہمارا total debt to GDP دیکھیں توتقریباً80,85 فیصد ہے دوسرے ملکوں کا دیکھیں جہاں ڈیفالٹ ہوا ہے وہاں پر تو وہ اوسطاً تقریباً65 فیصد کے قریب ہے۔ایک چیز ہمیں شاید فوری طور پر کرنی پڑے جو ایکسچینج ریٹ ہے اس کو ہم بالکل افورڈ نہیں کرسکتے کہ اس کو اب کسی بھی صورت بھی مینج کریں۔جہاں تک امپورٹ کا تعلق ہے ہمیں luxuriesپر بہت سخت ایکشن لینا پڑے گاانرجی بچانا بہت ضروری ہوگی ۔لیکن ہم جس کسی کے پاس بھی جائیں گے وہ lender ہم سے یہ ضرور پوچھے گا جیسے علی ٹبا صاحب نے کہا کہ آپ کا میڈیم اور لانگ ٹرم پلان کیا ہے ۔ جہاں تک ہمارے لانگ ٹرم سلوشن کا تعلق ہے اس میں انرجی ریفارم بہت ضروری ہے ۔ 26 بلین ڈالر کی ہم انرجی امپورٹ کرتے ہیں ، ہم 10 بلین ڈالرز کے فوڈ آ ئٹمز کو امپورٹ کرتے ہیں ، ہماری ایکسپورٹ اس وقت اگر آپ اپنے پاور سیکٹر کو دیکھیں بجلی 16 سینٹ میں مل رہی ہے ، ہم اگر Emagen کریں کہ جی ہمیں اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانا پڑے گا تو اس پاور Cost کے اوپر ہم کس طرح اپنے ایکسپورٹ سیکٹر کو Comparative کرسکتے ہیں وود آؤٹ سبسڈیز کیونکہ سبسڈی دینے کے لئے حکومت کے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں اسی لئے ہمیں ان ایکسپورٹ پر فوکس کرنا پڑے گا۔

 شہزاد اقبال … اسحاق ڈار صاحب نے بھی کہا کہ آئی ایم ایف نو ، ہم ڈیفالٹ نہیں ہوں گے تاریخیں لوگ دیتے رہیں ڈیفالٹ نہیں ہو رہا ۔ اشفاق تولہ … ایسا نہیں ہے Not That ، the are sarton salossionجو کہ انشا اللہ آپ کو اس مرتبہ ملیں گے other then دو سلوشن کہ جو اگر ہم کہتے ہیں کہ جی آئی ایم ایف Only سلوشن آپ کو میں ایک بات بتاؤں ہمارا جیسا یہ ٹبا صاحب نے بھی کہا اور غیاث نے بھی کہا آپ کہہ رہے ہیں current account deficit، deficit میں آتا ہے ایک fiscal deficit آپ کا آتا ہے current account deficit اور اس کی وجہ سے ہم آئی ایم ایف میں ہیں May remind you there 10 countries in the world they have hoi Mach current account deficit more then as, current account deficit 2 % par me be 2 and half بہت ہی کم ہو جائے گا وود جی ڈی پی ان کے 5 ، 5 پرسنٹ بھی ہے ماشاء اللہ ابھی غیاث نے جو بتایا ہے اس سے زیادہ ان کے ریشوز پے ان کے ڈیفالٹ کے قریب کھڑے ہوئے ہیں مگر ان کے اندر کہیں انٹرنلی ایسے لوگ نہیں ہے جو دوسرے دن کہہ رہے ہیں کہ جی آج ڈیفالٹ کریں گے یا کل ڈیفالٹ کریں گے externally لوگوں نے اب منع کردیا ہے کہ جی اب ڈیفالٹ نہیں ہوگا انٹرنلی میں اور آپ روز ایک تقریر جھڑ دیتے ہیں کہ ہمارے اسٹوڈیو میں intellectual آتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جی ڈیفالٹ کرے گا اب اس سے پوری مارکیٹ کا sentiment خراب ہوتا ہے آپ دیکھیں جب آپ کو بلوم برگ کہتا ہے کہ جی 244 روپے کا ڈالر میں آپ کے پاس ٹی وی آکر کہتا تھا کہ 220 کا ڈالر ہوگا آپ نہیں مانتے تھے آپ اب سوچ لیں کہ بلوم برگ کہہ رہا ہے کہ ان کے دو economist کہہ رہے ہیں کہ یہ ورکنگ ہے 244 کی پھر بھی آج ایک اسٹیپ جب ہم نے لیا ، ایک اسٹیپ صرف کہ آپ کا جو کریڈیڈ کارڈ کی پے منٹ ہوں گی وہ انٹر بینک کے تھرو اب ہوں گی تو آپ کے پاس ، مجھے ایک بات بتائیں میرا مطلب ہے pure speculation ہے ، pure speculation ہے ۔شہزاد اقبال … اگلے سال کے لئے علی حسنین صاحب کہہ رہے ہیں 25 to 27 بلین ڈالرز کی ہماری انٹرنیشنل ابلی گیشن ہوں گی اس میں سے رول اوور بھی ہو جائے گا۔ علی حسنین … سب سے پہلے ہمیں diagnose ٹھیک کرنے ہیں اور یہاں میں آپ سے تھوڑا سا اختلاف کروں گا اور میری زیادہ Think view pointپہلے دونوں دوستوں سے ملتی ہے دیکھیں میں اس کی تفصیل ایک منٹ میں آتا ہوں سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھیں گے پاکستان ساڑھے 300 بلین ڈالرز کی اکانامی ہے اور پچھلے 8 مہینے سے ہم ایک بلین کے آئی ایم ایف کے ٹرانچ کے اوپر پیچھے چل رہے ہیں اور جو ٹوٹل آئی ایم ایف پیکیج ہے وہ ساڑھے 6 بلین کا ہے یعنی اگر سال میں ایک دن یا ایک ہفتے کا جتنا comparisonسال سے ہوتا ہے ایک چیز یہ ہے کہ ہمارے ہاں misconceptionیہ ہے کہ آئی ایم ایف brings relief آئی ایم ایف فار ناٹ ریلیف آئی ایم ایف آپ کو صرف اتنا ٹائم دیتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو ری اسٹرکچر کریں اور unfortunately موجودہ حکومت اور پچھلی حکومت دونوں نے ری اسٹرکچرنگ کے اوپر کہ آج سے 5 سال میں ہمارا کیا گیم پلان اس کے اوپر کوئی بات نہیں کی ۔ شہزاد اقبال … ڈاکٹر مفتاح اسماعیل صاحب آپ بتایئے گا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوتا ہے اور پاکستان ڈیفالٹ سے بچ پائے گا اور اس کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کو ۔ مفتاح اسماعیل … ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی عدم موجودگی کے باوجود بھی ہم یقین رکھتے ہیں کہ ڈیفالٹ کو بچا لیں گے تو یہ بات بہت زیادہ مشکل ہے ، اگر آئی ایم ایف نواں جائزہ بھی پورا نہیں ہوتا نائنتھ ریویو اور یہ ٹرانس بھی نہیں ملتی اس کے بعد ہم نئے آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائے ایگریمنٹ پے یا ایک لمبے پروگرام پر نہیں جاتے تو اگلے سال کے دوسرے کوارٹر میں ہمیں بہت مشکل ہو جائے گی اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں 35 ملین ڈالرز کی اگلے سال ضرورت پڑے گی آئی ایم ایف کی حساب سے اس میں سے ان کا حساب ہے کہ تقریباً 9 ملین ڈالرز جو ہے وہ current account deficit ہے ہم اگر ایک منٹ کے لئے سوچ بھی لیں کہ ہم current account deficitکو زیرو کردیں گے اگلے پورے سال تو بھی ہمیں 25 ملین کی ضرورت پڑے گی اس پر بھی اگر ہم سوچ لیں چلو 10 ملین جو ہے چائنا یا چائنز بینک یا یو اے ای یا سعودی عرب سے ری ڈوول کروا دیں گے تو پھر بھی 12 ، 15 ملین ڈالرز کی ضرورت پڑے گی وہ 12 ، 15 ملین ڈالرز اگر آئی ایم ایف بھی نہیں ہوگا تو وہ ہمیں کرنا بہت مشکل ہو جائے گا کیونکہ جب آئی ایم ایف کے پروگرام میں سے آپ نکل جاتے ہیں اور آپ کے پاس 3 مہینے کے ریزرو بھی نہیں ہوتے تو ورلڈ بینک بھی آپ کو پیسے نہیں دیتا اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک بھی پیسے نہیں دیتا اب تقریباً ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ مل کر آپ کو 5 بلین ڈالرز آپ کو سال کے دیتے ہیں آئی ایم ایف اگر 1 ، 2 ملین ڈالرز دے دیں تو 7 ملین یہ آتے ہیں اور جب ان کے پروگرام میں ہوتے ہیں تو آپ کچھ اور کمرشل بینک سے بھی لون لے سکتے ہیں دیگر اور بھی پروگرامز کر سکتے ہیں اور اسی لئے آئی ایم ایف یہ بھی مزید کہہ رہا ہے کہ آپ 6 ملین لے کر آئیں کیونکہ اس کے باوجود بھی آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ پھر شارٹیج ہوگی یہ کہنا کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر نکال لیں وقت تو بڑا مشکل ہو جائے گا ، پاکستان اس وقت جس نہج پر پہنچ گیا ہے اور پاکستان کے لئے کوئی نئی بات ہے کوئی اچھمبے والی بات نہیں ہے ہم 23 مرتبہ پہلے بھی آئی ایم ایف میں جا چکے ہیں تو ہم تو ہمیشہ اس طریقے سے معیشت چلا رہے ہوتے ہیں کہ جب ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا لازم ہو جاتا ہے تو اب بھی میرے خیال سے آئی ایم ایف کے پاس جانا لازمی ہے اور آئی ایم ایف کے بغیر ڈیفالٹ سے اگلے سیکنڈ کوارٹر میں اس کی پرابلیٹی بہت بڑھ جائے گی اور چونکہ وہ پرابیلٹی بڑھی ہوئی ہے اور آج بھی پرابیلٹی بڑھی ہوئی ہے اسی لئے جو ڈالر کی ڈیمانڈ ہے وہ بہت بڑھ گئی ہے مارکیٹ میں حوالے کی اور ہنڈی کی اور اسی لئے جو ہے وہ ڈالر کنٹرول نہیں ہو رہا اگر ہم یہ ڈیفالٹ کا رسک کم کردیں گے تو ڈالر بھی انشاء اللہ جو ہے وہ سنبھل جائے گا اور پاکستان کے اندر فارن انوسٹمنٹ بھی آئیں گی اور اگر آپ آئی ایم ایف سے یہ پروگرام نہیں کریں گے تو فارن انوسٹمنٹ بھی ڈرائپ ہو جائیں گے تو بہت ساری مشکلات ہوں گی ۔بہت ساری مشکلات ہوں گی لہٰذا ہم کو کوئی پلان بی ، پلان سی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے آئی ایم ایف آخری پلان ہے ہمیں یقینی بنانا چاہئے کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ۔ اینکر شہزاد اقبال…سابق وزیر خزانہ سمجھتے ہیں کوئی پلان بی ،سی نہیں ہے ہمیں آئی ایم ایف پروگرام میں ہی جانا ہے بصورت دیگر اگلے مالی سال کے دوسرے سہ ماہی میں ڈیفالٹ کے امکانات بڑھ جائیں گے؟محمد سہیل(چیف ایگزیکٹو، ٹاپ لائن سیکورٹیز)…جو میرے چار دوست ہیں انہوں نے بڑا اسٹیٹ فارورڈ جواب نہیں دیالیکن کچھ حد تک مفتاح قریب آئے۔آپ کا سوال ہے کہ کیا بغیر آئی ایم ایف کے پاکستان ڈیفالٹ کرے گا تو میرے خیال میں اس کے بعد زیادہ امکانات ہیں۔امکانات زیادہ ہے کہ بغیر آئی ایم ایف کے ہم اگلے بارہ مہینے ڈیفالٹ کرجائیں ۔اس کا حل ہے کہ کیا یہ بچایا جاسکتا ہے ہوسکتا ہے بچ جائے مگر وہ عارضی ہوگا۔ وہ بچے گا کیسے کہ آپ نے چین ، سعودیہ عربیہ کہ پیر پکڑ کے کسی طریقے سے آپ نے ان سے اضافی پیسے لے لئے رول اوور کرا لیا۔ امپورٹ کو اور سخت کردیا dividendکو اور روک لیافیس کو اور روک دیارائلٹی کو روک دیاتین چار بلین کا کرنٹ اکاؤنٹ سر پلس کرلیا۔تو شاید 10 فیصد امکانات ہیں کہ آپ بغیر آئی ایم ایف کے روک لیں عارضی ہوگا۔ اینکر شہزاد اقبال…خرم صاحب آپ کا کیانقطہ نظر ہے اس پر؟ خرم شہزاد (معاشی تجزیہ نگار)…میں اس سوال کو تین ایریاز میں دیکھوں گاکہ کیا ہم آئی ایم ایف اگر نہیں جاتے ڈیفالٹ کریں گے۔آپ ڈیفالٹ کے دہانے پر تو پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اب آئی ایم ایف کا قرضہ ہمیں کب ملتا ہے ہم اس کو آگے لے کر چلتے ہیں۔

ایک تو ہمارے پاس ٹائم لائن ہے ہمیں وہ دیکھنی ہے کہ اگر آئی ایم ایف نہیں ملتاتو ہمیں کیا کرنا ہے۔ٹائم لائن کے ساتھ ہماری پرابلم یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں ہمارے قرضے بہت زیادہ ہیں۔ہمارے پاس جو پیسہ پڑا ہے وہ پانچ ملین ڈالرز بھی نہیں ہے جو ڈیڑھ مہینے کی امپورٹ کور بھی نہیں بنتا۔تو یہ تو نمبرز سیدھے سیدھے ہیں اس میں کسی کی دو رائے نہیں ہوسکتی۔

تیسرا جو پوائنٹ ہے وہ حکمت عملی ہے کیا ہونی چاہئے ٹائم لائن ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ تین سے چار مہینے ہیں کھینچ کر چھ مہینے کہہ دیتا ہوں ۔ چھ مہینے میں میری حکمت عملی کیا ہونی چاہئے یہ ممکن ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر رہ جائیں ۔ ہم بچ سکتے ہیں حل ہے لیکن کیا وہ حل ہم عملدرآمد کر پائیں گے وہ حل کیا ہے ۔آپ کے پاس جو بنیادی مسئلہ ہے وہ ہے مالیاتی انتظام گورننس کا مسئلہ ہے بہت بڑا۔اگر آپ کافی ٹیکس اکٹھا کرسکیں اور اپنے اخراجات کم کرسکیں تو آپ کا کرنٹ اکاؤنٹ کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسئلہ نہیں ہے وہ کیوں نہیں ہے 2018ء میں بھی ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ19 بلین پر پہنچ گیا تھا ہم6 فیصد کی گروتھ کراس کررہے تھے۔ اس مرتبہ بھی ہمارے ساتھ یہ ہواہم پانچ چھ فیصد کی گروتھ کراس کرتے ہیں تو17,18 بلین ڈالر پر پہنچ جاتے ہیں۔مسئلہ ہمارے ہاں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نہیں ہے ۔ دنیا میں جن ممالک میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہائی ہوتے ہیں وہ پر سرمایہ کاری متوجہ ہوتی ہے۔ سرمایہ کار کا مائنڈ سیٹ یہ ہوتا ہے یہاں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہورہا ہے لوگ امپورٹ زیادہ کررہے ہیں اس کا مطلب ہے وہاں سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔یہ سرمایہ کار کے لئے ترغیب ہے کہ یہاں کھپت ہورہی ہے بہت بڑی مارکیٹ ہے۔اب میں آتا ہوں کہ مسئلہ کیا ہے مسئلہ دراصل فنانشل اکاؤنٹ ہے ۔ حل ایک اور ہوسکتا ہے جو کہ ہم عملدرآمد کریں تو شاید آئی ایم ایف کی ضرورت نہ پڑے ۔ آپ کے پاس تین ایریاز ہیں جہاں سے آپ ٹیکس اکٹھا کرسکتے ہیںاگر آپ ٹیکس دو سے تین ٹریلین ان جگہوں سے اکٹھا کریںریئل اسٹیٹ، زراعت سے ٹیکس اکٹھا کریں اور خرچے کم کریں ۔ اینکر شہزاد اقبال…میں اس پر ظفر مسعود صاحب کی پوائنٹ آف ویو لے لوں آپ کو کیا لگتا ہے ؟ ظفر مسعود (صدر، سی ای او، بینک آف پنجاب) …میں تو بہت پر امید ہوں کہ انشاء اللہ 30 جون سے پہلے ہم آئی ایم ایف کے ساتھ اپنا معاہدہ کر ہی لیں گے۔جب تک یہ پروگرام نہیں آتا تو تب تک کے لئے میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سراہتا ہوں ۔جس طرح انہوں نے انہوں نے مینیج کیاہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ43 بلین ڈالرز سے 25 بلین ڈالر پر آگیا۔اگر ہم اس کو یوں ہی آگے بڑھا لیں جب تک آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام نہیں ہوتامیرے خیال میں ہم ڈیفالٹ سے بچ سکتے ہیں۔اس کے لئے دو اور اہم وجوہات ہیں ایک تو یہ ہے کہ اگر آپ ہمارا پورا کا پورا debt پروفائل دیکھیں فارن کرنسی کااس کے اندر130 ارب ڈالر میں سے تقریباً10 فیصدجو ہے وہ کمرشل ہے۔ کمرشل کی حد تک جو ہمارے بانڈز کی ادائیگیاں ہیں وہ اپریل2024ء میں ہیں اس سے پہلے نہیں ہیں۔وہاں پر رول اوور اور جو دوبارہ ادائیگی ہوتی ہے وہ اہم ہوجاتی ہے اس کے علاوہ جو ہمارے قرضے ہیں وہ یا تو multilateral یاbilateral ہیں۔جو ہمارے دوست ممالک ہیں اور جو ہمارے دوستانہ ادارے ہیں وہ اس کو ہمیشہ رول اوور کردیتے ہیں۔اینکر شہزاد اقبال… سوال ہے آئی ایم ایف میں چلے جائیں بہت اچھا ہے اگر نہیں جاتے تو پاکستان ڈیفالٹ سے کیسے بچے گا؟عارف حبیب (چیئرمین ، عارف حبیب گروپ)…ہمیں کچھ آؤٹ آف باکس سوچنا ہوگا اس وقت یہ جو شارٹ فال ہے آخری جو وزیر اعظم کی میٹنگ ہوئی تھی اس میں وزیر خزانہ بھی تھے ۔انہو ں نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے بات کی اس میں تین باتوں پر ان کا اتفاق رائے ہوا۔ایک تو بجٹ آپ کو شیئر کرنا ہوگاانہوں نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کوبجٹ بھیج دیا ہے ۔ دوسری بات انہوں نے کی کہ آپ کا جواوپن بینک مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ کافرق ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ تین فیصد سے زیادہ نہ ہو وزیرخزانہ نے کہا کہ ہم نے ان سے کہا کہ5 فیصد رکھیں ۔تیسری بات یہ کی کہ جو آپ انتظامات ہیں فنڈنگ کی وہ ساری کرنی ہے وزیراعظم نے کہا ہم ان کو اس کی چیزیں بھیج دیں گے۔وزیراعظم اور وزیرخزانہ کی باتوں سے ہم نے جو تاثر لیا اس سے تو لگ رہا تھا کہ یہ پر امید ہیں کہ یہ چیز ہوجائے گی۔آپ کا سوال ہے کہ اگر یہ نہیں ہوا تو کیا ہوگا۔ ہمارا جو روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ہے مجھے تعجب ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اس کو بالکل رائٹ آف کردیا ہے ۔اس سے پاکستان میں تقریباً6 بلین ڈالرآئے تھے جو واپس چلے گئے اس میں تھوڑے سے رہ گئے ہیں ۔شرح سود بڑھ گئے ہیں تو آپ اسے بڑھا دیں یہ ہمارے بیرون ملک پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا ٹول ہے اس کو ٹارگٹ کرنا چاہئے تو فوراً آپ کو پیسے دستیاب ہوسکتے ہیں۔دوسرا ذریعہ جو مجھے نظر آتا ہے اگر پاکستان ایک اس قسم کی اسکیم دے اور یہ کہے کہ تمام پاکستانی دو دو لاکھ ڈالر حصہ ڈالیں اس کے عوض انہیں پلاٹس آفر کردیں ان کو کسٹم ڈیوٹی کے واؤچر دے دیں ۔اس کو debt repayment gape fundمطلب ابھی تین بلین ڈالر کی بات ہورہی ہے تین بلین کا شارٹ فال ہے پوری دنیا میں ہم نے جھولی پھیلائی ہوئی ہے ۔حکومت اس سائڈ کام کرتی دکھائی نہیں دیتی انہوں نے بالکل ہاتھ اٹھا دیئے ہیںاس طرف کام کرنے کی ضرورت ہے۔عارف حبیب : پچھلے 8 سال سے میں سن رہا ہوں کہ ایسا کریں ، ایسا کریں تو بڑھ جائے گی لیکن میں نے تو ایکسپورٹ بڑھتی نہیں دیکھی ۔ تھوڑا بہت جو آیا تو انٹرنیشنل پرائس بڑھنے سے آیا ویسے بھی یہ جو ایکسپورٹ ہے یہ لانگ ٹرم ہے ۔آج جو یہ بات ہورہی ہے کہ ہم یہ آئی ایم ایف اور ڈیفالٹ کے مسئلے سے کیسے حل ہوں تو اس کے لئے ہمیں امپورٹ کو جو ہے وہ کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت اگر مشینری کم ہوجاتی ہے تو ٹھیک ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اس وقت ، اس وقت اگر آٹوموبل کم ہوجائے تو مسئلہ نہیں ہے یہ ہمارے موبائل فون اگر کم ہوجائیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت ڈیفالٹ سے بچنا ہے اور اس کا فوری طریقہ یہ ہے کہ آپ ابھی امپورٹ کو کنٹرول کریں ،رومیٹریل کو بھی دیکھیں تاکہ ایکٹیویٹی جو ہے وہ چل سکے اس کے لئے اسٹیٹ بینک کو ان کے ساتھ اچھے طریقے سے انگیج ہونا چاہئے تمام انڈسٹریز کے ساتھ اور ان کو بتائے کہ یہ پلان ہوگا ۔ مارچ میں دیکھیں آپ کے ساڑھے چھ سو ملین ڈالرز کا سرپلس آیا پھر اپریل میں سرپلس آیا ۔ اور ابھی آپ نے کہا کہ 90 بلینز ڈالرز ہم نے 10 سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پھونک دیئے ۔ شہزاد اقبال : پروگرام کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ’’ہر شعبے کو ٹیکس نیٹ میں کیسے لے کر آئیں ۔اور یہ کیسے ممکن بنائیں او رتمام جو آمدنی ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے سے آپ لے رہے ہوں اس پر برابر کا ٹیکس ہو‘‘ اشفاق تولہ : پچھلے حوالے سے بات کروں گا دو منٹ دیں جہاں تک ایکسپورٹ کا تعلق تھا اور بات کرتے ہیں Debtکی تو آپ کاDebt 100ملین سے اوپر نہیں ہے ۔دیکھی جاتی ہے تو سیکوریٹائزیشن دیکھی جاتی ہے More then ،2 ٹریلین آپ کےasset بھی پڑے ہوئے ہیں ڈالرزٹرمز میں تو یہ مت سمجھئے گا کہ پاکستان Not a Solvent Countryپاکستان جو ہے وہ Solvent Country ہے الحمد للہ او ریہ کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوگا ۔ شہزاد اقبال : جو ٹارگٹ رکھا جائے گا 9 ہزار دو سو ارب روپے کا ہے ٹیکس کا 7 ہزار یا 7ہزار 500 تو آپ کی Debt servicingمیں چلے جائیں گے تو پھر بچا کیا پیچھے ؟علی حسنین : جس طرح آپ نے بات کی ریٹیلر اور ایگریکلچر کی تو ایگریکلچر میں ٹیکس کا شیئر 1فیصد سے بھی کم ہے اسی طرح سروسز جو ہیں وہ 60فیصد کے قریب ہیں اور اس کا ٹیکس میں شیئر 30 فیصد ہے ،انڈسٹری ہماری بہت گری ہے ،مینو فیکچرنگ گری ہے اور اس کو روکنے کے لئے پھر ہم بہت پن پوائنٹڈ قسم کی سبسڈیز چاہتے ہیں ۔ آپ ٹیکسیشن جتنا یونیفارم کرسکتے ہیں کریں ۔ ہمارا اصل ایشو ہے عملدرآمد کا ۔ میں خود حکومت کی ایسی میٹنگز میں بیٹھاہوں جہاں اس پر بحثہورہی ہوتی ہے کہ ایگریکلچر پر ٹیکس لگانا ہے کہ نہیں اور وہاں فوری طو رپر سیاسی معاملہ پیدا ہوجاتا ہے جو کہتا ہے کہ نہیں ابھی رہنے دیں ،کرنا ہے لیکن ابھی رہنے دیں ۔ رئیل اسٹیٹ کے اوپر کس کے سیاسی مفادات ہیں کیوں ٹیکس نہیں لگ سکتا ،فرٹیلائزر کے اوپر کیوں نہیں لگ سکتا ۔ انویسٹرز یہ نہ دیکھے کہ گورنمنٹ کی پالیسی ایسی کیسی ہے جس سے میرے پیسے بڑھیں گے یہ دیکھیں کہ عالمی منڈی میں ، میں کیا بیچوں گا اور اس سے میرا منافع کیا ہوگا ۔شہزاد اقبال : دوسرے جو شعبے ہیں ان کو کیسے ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے اس میں خاص طو رپر صوبائی حکومتوں کا کردار بہت اہم ہوگا اگر آپ نے رئیل اسٹیٹ پر یا پھر ایگریکلچر پر ٹیکس لگانا ہے ؟ علی ٹبا : ہم بات کرتے ہیں کہ پاکستان کی جی ڈی پی ٹرمز آف پاکستان کی اکانومی325 بلینز کی ہے اور کوئی 10فیصد ٹیکس کلیکٹ کررہے ہیں جو تقریبا 9 ٹریلینز بن جاتا ہے ہم دیکھیں تو ہمار ا ٹیکس جی ڈی پی 5فیصد بھی نہیں ہے اگر آپ پیرالل اکانومی کو آپ جمع کرلیں اپنی آفیشل اکانومی میں اس کے بعد آپ 9ٹریلینز بھی اگر آپ تو میرے خیال میں پاکستان میں سب سے بڑا جو فلو ہے وہ یہ کہ ہم اتنی ہائی ٹیکسیشن کی طرف چلے جاتے ہیں کہ لوگ اس کو Avoide کرتے ہیں دنیا بھر میں تھیوریز ہیں کہ آپ Low ٹیکسیشن رکھیں مگر براڈ بیس رکھیں ۔ 18وین ترمیم کے بعد بہت سارے اختیارات ٹیکس کے بھی صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں جس میں سروسز ٹیکس زیادہ ہیں ۔جس میں آپ کے سیلون ہیں ، کیٹرنگ ہیں جو کہ ٹیکس نیٹ میں ہے ہی نہیں اور اگر آپ 17فیصد ٹیکس رکھ کر ان سے انکم ٹیکس بھی مانگیں گے تو پھر کوئی بھی آدمی جو ہے وہ عملدرآمد کی طرف نہیں جائے گا ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت جب ٹیکس ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا تو جو کمٹمنٹ کئے ہوتے ہیں وہ سب بھول جاتی ہے اور نئے ٹیکسیشن کی طرف آجاتی ہے ۔شہزاد اقبال : یہ باتیں تو ہورہی ہیں کہ کس کس کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے لیکن اعتماد نہیں ہے حکومت کے ساتھ ،ایف بی آر کے ساتھ ، ڈاکیومینٹیشن سے لوگ گھبرارہے ہیں ، اب تو ٹائم ہمارے پاس ہے ہی نہیں 9 ہزار ارب اکھٹا کرکے بھی ہم کچھ نہیں کرپائیں گے ۔محمد سہیل : لیکن شہزاد اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس زیادہ ہے یا مجھ پر ٹیکس زیادہ ہے تو میرے خیال میں وہ مس اسٹیٹمنٹ ہے ،پاکستانی قوم بذات خود ٹیکس دینا نہیں چاہتی بھلے اعتماد آ بھی جائے ۔ یہ کس اکانومسٹ نے کہا ہے یا یہ کونسی پی ایچ ڈی کی تھیسس ہے یہ ایک اندازہ ہے اگر آپ کا گھر 500 گز کا ہے اور میرا گھر بھی 500 گز کا ہے مگر گھر مختلف علاقے میں ہیں لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ٹیکس زیادہ اور میں کم دوں گا اور یہ میرا بہانہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں ٹیکس اس لئے چوری کروں گا کہ میرے سامنے جو ریٹیلر ہے وہ ٹیکس نہیں دیتا اور یہ کہیں کا بھی انصاف نہیں ہے ۔ شہزاد اقبال : جی غیاث صاحب غیاث خان: ٹیکس کا معاملہ ہوگا انفورسمنٹ سے ،دنیا میں کئی مثالیں ملیں گی کہ جہاں پر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر ان کی حکومت اچھی طرح سے پیسے خرچ کررہی ہے تو وہ خوشی سے جاکر ٹیکس دیں ، خوشی سے کوئی ٹیکس نہیں دیتا ٹیکس دیا جاتا ہے انفورسمنٹ کی بنا پر ، ٹیکس دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ٹیکس نہیں دیں گے تو جیل جائیں گے ،دوسری چیز یہ کہ اب یہ کس طرح کیا جائے دیکھیں اس میں آپ نے کرنا ہے اپنی معیشت کو ڈاکیومنٹ آپ کے پاس ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر موجود ہیں ،ٹیکس ریونیو میں کمی موجود ہے تو پھر کیا چیز آپ کو روک رہی ہے نادارا کا سسٹم بہت موثر ہے ۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ڈاکیومینٹیشن سے ٹیکس تو دینا پڑے گا ۔شہزاد اقبال :ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو گروتھ ہے وہ تو بالکل ہی فلٹ ہوچکی ہے ۔عارف حبیب : ایگریکلچر پرتو ٹیکس ہے نہیں پہلے تو یہ سیاسی بصارت چاہئے ہوگی کہ وہاں جہاں ٹیکس نہیں ٹیکس لگائے ۔ جہاںِ بھی انکم ہے وہاں ٹیکس ہونا چاہئے ۔لیکن یہاں تو ایک دوسرے پر ڈالا جارہا ہے کبھی ادھر تو کبھی ادھر کرتے ہیں تو اس میں میرا خیال ہے سنجیدگی نہیں ہے ۔یہاں انفورسمنٹ کی پرابلم ہے اور آپ یاد کریں جب مفتاح صاحب نے ٹرائی کیا تھا تو اوپر سے فون آگیا تھا کہ ان کو ہٹاؤ ختم کرو ۔ جو جو بھی آیا تھا مطلب یہ ہے کہ وہ میسج ان کو گیا کہ بندے بنو آپ یہ کیا کررہے ہو جب اس قسم کا رویہ ہوگا تو پھر کیسے جو ہے وہ ہمارا ٹیکس نیٹ جو ہے وہ بڑھے گا ۔ پراپرٹی پر تو ٹیکس ہے کون کہتا ہے کہ ٹیکس نہیں ہے اس پر تو ہر جگہ پر ٹیکس ہے بس یہاں ڈاکیومینٹڈ اور ان ڈاکیومینٹڈ کا مسئلہ ہے ۔ یہاں انفورسمنٹ ایشو ہے او راس کے لئے اسٹرکچر کی ضرورت ہے ۔ یہاں پر کنوینشل طریقے سے ٹیکس ہونے کے باوجود ٹیکس جو ہے وہ کم ملتا ہے اس لئے کہ وہ ڈاکیومینٹڈ جو ہے وہ نہیں ہے ۔

یہاں سیاسی بصارت اور انفورسمنٹ کی بات ہے یہ دو چیزیں کریں تو پھر لازمی ٹیکس آئے گا ۔ میں اگر وزیراعظم ہوتا تو میں گورنر اسٹیٹ بینک کے آفس میں بیٹھا رہتا کیونکہ جو مہنگائی ہے وہ ڈی ویلیوایشن کی وجہ سے کیونکہ ہمارا روپیہ کمزور ہوگیا تو ہم دیکھ ہی نہیں رہے کہ کوئی ریلیف جو ہے وہ مل رہا ہو ۔عوام کو جو تکلیف ہے بڑی تکلیف ہے وہ مہنگائی کی وجہ سے ہے دوسرا جو ایشو ہے وہ روپے کی جو ویلیو ہے اس کا دفاع کرنا بڑا ضروری ہے یہاں تو کہتے ہیں جانے دو 300پر جانے دو ، 400 پر جانے دو لیکن اس سے عام آدمی جو ہے وہ اس کو سسٹین نہیں کرسکے گا ۔

 ایک لمٹ ہوتا ہے اس کو مینج کرنا ہوتا ہے ۔ انٹریسٹ ریٹ بڑھانے سے مہنگائی کے اوپر کوئی کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں آتا ہے ۔ بے روزگاری اور سوشل پرابلم بڑھیں گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت انٹریسٹ ریٹ کو نیچے لانے کے لئے اقدامات کرے اور روپے کی ویلیو کو جو ہے وہ بہتر کرنے کے اقدامات کرے ۔شہزاد اقبال: ہم بات کررہے ہیں کہ ٹیکس اصلاحات کی بات تو ایک عرصہ سے ہوتی ہے لیکن ٹیکس اصلاحات کیسے کی جائیں کیونکہ ٹیکس نیٹ آپ کا وسیع ہو، یہ نہ ہو کہ جو سیکٹر اور لوگ پہلے ہی ٹیکس ادا کرہے ہیں ان پر مزید بوجھ بڑھتا رہے؟ خرم شہزاد: ٹیکس کی ہمارے ساتھیوں نے بہت بات کرلی ہے.

ٹیکس ٹو جی ڈی پی پچھلے دس سال کا جائزہ لیں تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریٹ ہوا ہے 9فیصد سے لے کر 12فیصد کے بیچ میں آپ گئے ہیں، لیکن ہم ایک بہت بڑا ایشو نظرانداز کرتے ہیں جو اس کو اوورشیڈو کردیتا ہے کہ ہمارے پاس ٹیکس نہیں ہے، ہم نے اس سے ٹیکس نہیں لیا، ہماری کچھ گرے اکانومی ہے چاہے وہ 50فیصد ہے یا 80فیصد ہے، ان ڈائریکٹ ٹیکس سب دیتے ہیں۔ شہزاد اقبال: ظفر صاحب آپ کا کیا نکتہ نظر ہے کیسے ہوسکتا ہے equitable tax ؟ ظفر مسعود: اس معاملہ میں ایک تو ہمیں realistic ہونا پڑے گا اور realistic اس sense میں ہوناپڑے گا کہ ہمارے ٹیکسیشن کے نظام میں ہم یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ صرف تین ملین لوگ ٹیکس دیتے ہیں لیکن ہمارا 90 فیصد سے زیادہ ٹیکس کلیکشن indirectly ہے، لوگ اپنے سیل فون پر بھی ٹیکس دیتے ہیں، پٹرول پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں، یوٹیلیٹیز پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں، جن کے پاس ٹی وی نہیں ہے وہ بھی پی ٹی وی کا ٹیکس بل کے ذریعہ ادا کرتے ہیں، پاکستا ن کی تقریباً پوری آبادی one way or the other ٹیکس ضرور ادا کرتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمار سوشل کانٹریکٹ بہت کمزور ہے between the government and public in terms of tax collection and the delivery of taxes, until the improve the indirect texation is the only way میں تو اس بات کا بہت بڑا سپورٹر رہا ہوں کہ ہمیں سپورٹ کرنا چاہئے step come indirect taxation کو۔ ہم غالباً اس بات کیلئے تیار ہی نہیں ہیں کہ ہم direct taxation کی طرف جائیں، ڈائریکٹ ٹیکسیشن بہت اہم ہے.

انکم ٹیکس بہت اہم ہے لیکن جیسا میں نے کہا کہ there is larger social issues and political جب تک ہم وہ ایڈریس نہیں کرتے ہمیں کوئی نہ کوئی حل تو نکالنا ہے، اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس کی کلیکشن ایک دہائی میں تقریباً پانچ سے چھ گنا بڑھی ہے مگر جو ہمارا بڑا ایشو یہ ہے کہ دوسری طرف ہمارے اخراجات اس سے بہت زیادہ بڑھ گئے، جہاں ٹیکسیشن کا معاملہ ہے ہمیں ضرور اس ایریا کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہئے اور جو موجودہ ٹیکس دہندگان ہیں ان کو ہی bilp نہیں کرنا چاہئے اور بھی لانا چاہئے ، ویلتھ ٹیکس، inherritance tax اور debt assets پر جو ٹیکس ہے وہ ایک بہت اچھا آئیڈیا ہوسکتا ہے جسے ہمیں pursu کرنا چاہئے۔

غیاث خان: اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی رپورٹ تھی ہم صرف انڈیا کی مثال لے لیتے ہیں، 2017ء میں ان کا estimate تھا تقریباً 52فیصد ان کی اکانومی ان فارمل تھی ، انہوں نے digitizationکی، ڈی مونٹائزیشن کی، بہت سے اقدامات کیی، پچھلے سال there estimate of informal undocumented economy تقریباً 15 فیصد پر آگئی .

 تیرہ ٹریلین انڈین روپے انہوں نے اس پیریڈ کے اندر اضافی جمع کیے ہیں، ہم ابھی سے اس بات پر ہار مان لیں گے کہ ہم یہ کر ہی نہیں سکتے تو اس سے مجھے اختلاف ہے، جب ہم ویلتھ ٹیکس کی بات کرتے ہیں تو ہم پھر اسی طرف جارہے ہیں کہ جس انسا ن نے شاید ڈاکیومنٹ ہونے کی غلطی کرلی ہے تو بار بار اسی کو ٹیکس کیا جائے ، یہ بالکل ایک negative measure ہے۔

اہم خبریں سے مزید