٭…رنگوں کی بہار
اردو میں بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ رنگوں کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاً : گنگا جمنی۔ اس کے دوسرے معنوں سے قطع نظر ، رنگوں سے متعلق جب گنگا جمنی کی ترکیب استعمال کی جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے دو رنگا،دو رنگوں کا ، خاص طور پر سنہرا اور روپہلا۔ جس چیز پر سونے اور چاندی دونوں کا کام کیا ہوا ہویا یہ دونوں رنگ استعمال کیے گئے ہوں اسے اردو میں گنگا جمنی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاہ اور سفید رنگ جہاں ایک ساتھ ہوں اسے بھی گنگا جمنی کہتے ہیں، خاص طور پر جس گھوڑے کے جسم پر یہ دونوں رنگ ہوں اسے گنگا جمنی کہاجاتا ہے۔ ایسے گھوڑے کا ایک نام’’ ابلق ‘‘بھی ہے اور’’ چتکبرا ‘‘بھی اسی کو کہتے ہیں۔
تین رنگوں والی چیز کو ’تِرنگا ‘‘کہتے ہیں اور اگر مؤنث ہو تو ’’ترنگی‘‘ کہتے ہیں ۔ یہاں ’’تِ ‘‘ تین کا مخفف ہے اور رنگا سے مراد ہے رنگ کا۔ ہندوستان کے پرچم کو اسی لیے ترنگا کہتے ہیں کہ اس میں تین رنگ ہیں۔ پانچ رنگوں والا پچرنگا (پچ یعنی پانچ) اور سات رنگوں والا سترنگا (ست یعنی سات)کہلاتا ہے۔ اردو لغت بورڈ کی لغت کے مطابق ست رنگا کا ایک مطلب ہے بہت سے رنگوں کا، رنگ برنگا۔ اس کی مونث ہے، سترنگی یعنی سات رنگ کی۔ لیکن اردو لغت بورڈ میں ست رنگی یا سترنگی کا اندراج نہیں ہے۔ سترنگی سے مرادہے : سات رنگ کی۔
……چند وضاحتیں ……
ارد و میں بعض ایسے مرکبات بھی مستعمل ہیں جن کی وضاحت کیے بغیر ان کو سمجھنا ذرا مشکل ہے، مثلا ً: شربتی آنکھیں۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ شربت کے رنگ کی آنکھیں لیکن شربت تو مختلف رنگوں میں آتے ہیں۔ یہ ترکیب دراصل آنکھوں کے ایک خاص قسم کے رنگ کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اردو لغت بورڈ کی لغت کے مطابق زردی مائل سرخ رنگ کو شربتی رنگ کہتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ نارنجی رنگ اور کتھئی رنگ کے مرکب سے مشابہ ایک رنگ ہوتا ہے، ممکن ہے آپ نے ایسی آنکھیں دیکھی ہوں۔
اسی طرح ایک ترکیب ہے :کُھلتا ہوا رنگ یا کُھلتا ہوا گندمی رنگ۔ اردو لغت بورڈ کی لغت کے مطابق اگر رنگ گندمی ہو لیکن صاف ہو یعنی قدرے گور ے رنگ کی طرف مائل ہوتو اسے کُھلتا ہوا رنگ کہتے ہیں۔ چمپئی رنگت یا کندن جیسا رنگ بھی کھلتے ہوئے رنگ کو کہتے ہیں۔ چہرے کے رنگ کے لیے ایک اور اصطلاح شہابی رنگ کی استعمال ہوتی ہے، اس سے مراد ہے سرخی مائل سفید رنگ۔ یعنی ایسی گوری رنگت جو سُرخی مائل ہو، شہابی رنگت کہلاتی ہے۔جسم کی بہت گوری رنگت کو میدے جیسی رنگت بھی کہا جاتا ہے۔
ایک رنگ کرنجی ہوتا ہے، یہ بالعموم آنکھوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، یعنی ’’کرنجی آنکھیں ‘‘کہا جاتا ہے۔ اردو لغت بورڈ اور علمی اردو لغت کے مطابق کرنجی سے مراد ہے نیلا رنگ۔ اور کرنجی آنکھیں یعنی نیلی آنکھیں۔ لیکن بورڈ نے لفظ ’’کرنج‘‘ کے معنی یوں لکھے ہیں :ایک خاکی رنگ کا پھل۔ پلیٹس کی لغت میں بھی کرنج، کرنجا اور کرنجوا کے معنی لکھے ہیں : fever-nut ۔ اور یہ پھل یعنی فیور نَٹ خاکی یا بھورا نہیں بلکہ سُرمئی یا سلیٹی رنگ کا ہوتا ہے جسے انگریزی میں’’ گرے ‘‘ (grey) کہتے ہیں۔ لیکن پلیٹس نے اس کے ایک معنی’’برائون کلر ‘‘ بھی لکھا ہے۔فیلن نے بھی اپنی لغت میں اس کے معنی برائون کلر دیے ہیں۔چلیے سرمئی اوربھورے کے کچھ ہلکے یا گہرے ہونے سے دونوں میں مغالطے کا امکان رہتا ہے لیکن اسے’’ نیلا ‘‘کہنا کچھ عجیب ہی لگتا ہے اور یہ معاملہ الجھا ہوا ہے۔
ایک اور رنگ’’ مگسی ‘‘کہلا تا ہے۔ مَگَس ( مِیم پر زبر اور گاف پر بھی زبر) فارسی میں مکھی کو کہتے ہیں اور پلیٹس کے مطابق (دیگر معنوں سے قطع نظر) یہ گھوڑے کا ایک رنگ ہوتا ہے، جسے انگریزی میں freckled کہا جاتا ہے۔ شان الحق حقی صاحب نے freckle کے معنی لکھے ہیں: چٹّا ، عموماًدھوپ کی تیزی سے جسم پر پڑنے والا بھورا داغ۔ اور freckled سے، بقول حقی صاحب کے، مراد ہے: دھبے دار۔ عام طور پر مغربی ممالک کے بعض باشندوں کے چہرے پر یہ بھورے یا کتھئی دھبے دیکھے جاتے ہیں اور دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ بہت سارے بھورے تِل ہیں۔ گویا مگسی سے مراد بھورا یا کتھئی ہے۔ اردو لغت بورڈکی لغت میں مگسی کے معنی لکھے ہیں: سیاہی مائل، ملگجا(رنگ)۔ دوسرے معنی دیے ہیں :مکھی کے رنگ والا۔
عربی میں مستعمل رنگوں کے نام بھی بعض اوقات اردو میں استعمال ہوتے ہیں ، جیسے : احمر(لال)، اخضر (ہرا)، ازرق (نیلا)، اصفر (پیلا)، اسود (کالا)، ابیض (سفید) ، وغیرہ۔
…… رنگوں کی کیفیت ……
رنگوں کو انسان ان کے ناموں سے پہچانتا ہے لیکن ان میں فرق اور امتیاز کے لیے رنگوں کی کچھ خصوصیات کو بھی پیش ِ نظر رکھا جاتا ہے کیونکہ ایک ہی رنگ کے مختلف درجوں، چمک ، کیفیت اور شدت کو بیان کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ایسے مواقع پر اردو میں عام طور پر ’’ہلکا ‘‘ او ر’’گہرا ‘‘ جیسے الفاظ رنگ کی شدت کو ظاہر کیا جاتا ہے، جیسے : ہلکا سبز، گہرانیلا۔ اسی طرح ’’مدھم‘‘ اور’’ تیز ‘‘ جیسی صفات یا دوسرے الفاظ بھی رنگ کی نوعیت، شدت یا چمک کو ظاہر کرنے کے لیے رنگوں کے ناموں کے ساتھ استعمال کی جاتی ہیں ، مثلاً مدھم پیلا،دھیما نارنجی، تیز گلابی رنگ ، چیختا ہوا سرخ، شوخ لال،کُھلتا ہوا گورا رنگ، کالا بھُجنگ(بھ پر پیش، ج پر زبر) ، بھجنگ یعنی بہت کالا، نہایت سیاہ۔ کالے سانپ کو بھی بھجنگ کہتے ہیں۔
ایک رنگ چُہچُہا تا ہواکہلاتا ہے (دونوں چ پر پیش)۔یہ لفظ رنگ کی بہت شوخی اور چمک کو ظاہر کرنے کے لیے آتا ہے، خاص طور پر لال رنگ کے بارے میں کہتے ہیں، چُہچُہاتا ہوا سرخ رنگ۔ ایک اور لفظ ہے ڈہڈہاتا ۔ اس کے معنی ہیں سیراب ہونا، سرسبز ہونا۔اس سے رنگ کی شوخی اور چمک مراد ہے ۔عام طور پرسبز رنگ کو ڈہڈہاتا ہوا کہتے ہیں اور یہ زرد یعنی پیلے رنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح بعض اشیا کا نام لے کر رنگ کو واضح کیا جاتا ہے ، مثال کے طور پر:آسمانی نیلا ، ٹماٹر جیسا سرخ، ہلدی جیسا پیلا۔
…اُردو میں رنگ بطورمحاورہ اور علامت …
اردو میں رنگوں کو محاوروں میں استعمال کرکے بعض خاص کیفیات کو واضح کیا جاتا ہے، مثلاً : سرخ شرم کے لیے بھی آتا ہے اور غصے کے لیے بھی ، جیسے : شرم سے یا غصے سے چہرہ سرخ ہوگیا ۔ پیلارنگ خوف یا بیماری کو ظاہر کرتا ہے ، جیسے خوف سے چہر ہ پیلا پڑگیا یا بیمار ی نے پیلا کردیا۔ نیلا یا کالا رنگ مارپیٹ یا چوٹ کے نشان کے لیے آتا ہے ، مثال کے طور پر چوٹوں سے جسم نیلا پڑگیا یا نیل پڑگئے۔ سفید رنگ خوف کے لیے بھی آتا ہے جیسے : چہرہ خوف سے سفید پڑگیا۔
سبز رنگ کے بارے میں عجیب بات یہ ہے کہ یہ شادابی، سرسبزی اور خوشحالی کی بھی علامت ہے لیکن اس کو نجانے کیوں نحس بھی سمجھا جاتا ہے۔اردو میں سبز قدم کا مطلب ہے منحوس۔ لیکن ارد ومیں کہاوت ہے: ساون کے اندھے کو ہرا ہرا سوجھتا ہے،اس سے مراد ہے ہر شخص اپنے حالات اور سوچ کے مطابق دوسروں کے حال کے بارے میں گمان کرتا ہے یعنی جس نے کبھی تکلیف اور سختی نہ دیکھی ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ اچھے حال میں ہیں۔
سفید رنگ پاکیزگی اور پارسائی کی بھی علامت ہے۔ سیاہ رنگ ماتم اور بدنصیبی کی بھی علامت ہے۔ اردو میں سیاہ بخت کا مطلب ہے بد نصیب، بد قسمت۔ اردو میں رنگوں پر مبنی محاوروں اور کہاوتوں کی خاصی بڑی تعداد ہے لہٰذا اسے کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی