• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار سال گزر گئے، شہری کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ نے معلومات فراہم نہیں کیں

اسلام آباد (عمر چیمہ) اپریل 2019 میں ایک شہری نے رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ (معلومات تک رسائی کے قانون) کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں عدالت عظمیٰ کے عملے اور خالی اسامیوں پر کی گئی بھرتیوں کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں۔ چار سال گزرنے کے باوجود، پنجاب انفارمیشن کمیشن کے سابق کمشنر مختار احمد علی کو یہ معلومات نہیں مل سکیں۔ پہلے تو سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے یہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن نے درخواست گزار کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ اس پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے کمیشن کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ عدالت نے سماعت کے بعد کمیشن کے حکم کو کالعدم قرار دیدیا۔ اس کے بعد درخواست گزار نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جسے دو رکنی بنچ نے ٹائم بارڈ قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ کے تحت دائر کردہ درخواست کے ذریعے مختار احمد نے سپریم کورٹ کے منظور شدہ عملے کی تعداد، خالی اسامیوں کی تعداد، ریگولر ملازمین اور یومیہ اجرتی ملازمین کی تعداد کے حوالے سے سوالات پوچھے تھے۔ درخواست گزار نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ آیا دیگر اداروں کی طرح سپریم کورٹ میں بھی خواتین، معذوروں، خواجہ سراؤں کیلئے کوئی کوٹہ ہے، اور اگر کوٹہ ہے تو ایسے کتنے افراد کو کوٹے پر بھرتی کیا گیا ہے۔ رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست ملنے پر کوئی بھی ادارہ دس یوم کے اندر جواب دینے کا پابند ہے، جس میں مزید کچھ دن کی توسیع کی جا سکتی ہے۔ عوامی ادارے کی وضع کردہ تعریف میں سپریم کورٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم، درخواست دائر ہونے کے بعد کوئی جواب نہیں دیا گیا جس پر مختار احمد علی نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں ایک اور درخواست دائر کردی کہ انہیں مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے کمیشن کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آئین میں کسی بھی ادارے کو عدلیہ کے کام کرنے کے طور طریقوں پر نظر رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ سیکریٹری قانون کو 30 ستمبر 2014 کو ارسال کردہ ایک خط کا حوالہ تھا جو ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے سوالات کے جواب میں ارسال کیا گیا تھا۔ خط میں آئین کے آرٹیکل 2A کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں عدلیہ کی آزادی کو مکمل انداز سے یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ جب پاکستان انفارمیشن کمیشن نے رجسٹرار کا یہ خط درخواست دہندہ مختار احمد کو فراہم کیا تو انہوں اپنے جاننے کے حق کے تحت جواب الجواب دائر کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے ایک علیحدہ معاملے پر وزارت قانون کو لکھے گئے پانچ سال پرانے خط کا حوالہ دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ان کی درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، یہ درخواست انہوں نے اپنے بنیادی حق تک رسائی کی خاطر بطور ایک شہری دائر کی تھی، یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 19-A کے ذریعہ معلومات تک رسائی کی ضمانت دی گئی ہے یہ کہ پارلیمنٹ کی جانب سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 منظور کر کے اس حق کو مزید مستحکم کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا اور نومبر 2021ء میں حکم جاری کیا۔

اہم خبریں سے مزید