اسلام آباد (محمد صالح ظافر ) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو گجرات قتل عام میں ملوث ہونے پر ایک دہائی تک امریکا داخلے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، مودی کو ’’گجرات کا قصائی‘‘ بھی کہا جاتا تھا تاہم بھارتی وزیراعظم بننے کے بعد ان پر امریکی ویزے کی پابندی کے خاتمے کے بعد سے وہ گزشتہ 9 سال میں پانچویں بار امریکا کے دورے پر پہنچے ہیں،مودی کیلئے پہلی بار اعلیٰ ترین سفارتی پروٹوکول ، امریکی میڈیا کے سخت سوالات ، جواب نہ دے سکے، بھارتی وزیراعظم امریکا چین مخاصمت سے فائدہ اٹھارہے ہیں ، ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربرہان سے ملاقات، بھارتی وزیراعظم اپنے دورے میں ڈرونز ، لڑاکا طیاروں کے انجن سمیت کئی معاہدے کرینگے، مودی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے، دو خواتین ارکان بھی بائیکاٹ کریں گی ۔ مودی اپنے دورے کے موقع پر ایپل کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ٹک کوک، گوگل کے سی ای او سندر پچائی، مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیا نادیلا اور فیڈیکس کے سی ای او راج سبھرامانیام سمیت کئی دیگر امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے وائٹ ہاوس میں اسٹیٹ ڈنر کے موقع پر آج جمعرات کے روز ملاقات کریں گے۔ مودی کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان سے کل علیحدہ سے ملاقات کی تیاری بھی کی جارہی ہے جس میں ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ٹیکنالوجی کو چین سے دور لے جانے کے لئے مختلف راستوں کی تلاش پر بھی مذاکرات کریں گے۔ امریکی میڈیا بھارتی رہنما کی مختلف ملاقاتوں کو بہت زیادہ کوریج دے رہا ہے۔ مودی امریکا اور چین کے درمیان موجود مخاصمت کو اپنے ملک کیلئے پوری طرح سے استعمال کررہے ہیں۔ اسی اثنا امریکی ڈیموکریٹ کے 75 اراکین نے امریکی صدر جوبائیڈن پر زور دیتے ہوئے مودی کے سامنے ان کے اپنے ملک میں جمہوریت کے حوالے سے خدشات اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ مودی تین روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچیں ہیں، اگر چہ یہ مودی کا گزشتہ 9 برس میں پانچواں دورہ امریکا ہے تاہم یہ ان کا پہلا دورہ ہے جس میں انہیں پہلی بار اعلیٰ ترین سفارتی پروٹوکول دیا جارہا ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل کیساتھ انٹرویو کے دوران بھارتی وزیراعظم سے سیاسی مخالفین، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کیخلاف ڈریکولائی قانون کے استعمال پر خدشات اٹھاتے ہوئے سوالات کئے تاہم امریکی اخبار کے مطابق بھارتی وزیراعظم نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وائٹ ہاوس کو لکھے گئے خط پر 75 امریکی ارکان کانگریس نے دستخط کئے ہیں جن میں 18 سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے 57 ارکان شامل ہیں۔ ان ارکان میں سینیٹرز برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن بھی شامل ہیں، یہ دونوں افراد ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں اپنی اقدار کے مطابق عالمی منظر نامے پر دوست اور دشمن دونوں کیلئے ایک ہی طرح کے منصفانہ معیار استعمال کرنے چاہئیں اور اسی طرح کا اصول اپنانا چاہئے جو ہم امریکا میں اپناتے ہیں۔ خط میں بھارت میں سیاسی رواداری، مذہبی عدم برداشت، سول سوسائٹی اور صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے اور آزادی صحافت سمیت انٹرنیٹ پر پابندیوں سے متعلق خدشات اٹھائے گئے ہیں۔ خط میں امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق، مذہبی آزادیوں سے متعلق سالانہ رپورٹ اور اس کیساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی بندشوں پر نظر رکھنے والے عالمی نگران اداروں کی فہرستوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ ڈیموکریٹ کانگریس وومن راشدہ طالب نے ٹویٹ کیا کہ وہ جمعرات کو بھارتی وزیر اعظم کے کانگریس سے مشترکہ خطاب کا بائیکاٹ کریں گی۔ ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’یہ شرمناک بات ہے کہ مودی کو ہمارے ملک کے دارالحکومت میں ایک پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جمہوریت مخالف اقدامات، مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے، اور صحافیوں کو سنسر کرنے کی ان کی طویل تاریخ ناقابل قبول ہے۔‘‘ ایک اور خاتون رکن کانگریس ایلہان عمر بھی مودی کے خطاب میں شرکت نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا ہے کہ ’’وزیراعظم مودی کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں پر جبر کیا، پرتشدد ہندو قوم پرست گروہوں کی حوصلہ افزائی کی، اور صحافیوں/ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو نشانہ بنایا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے بھارتی وزیراعظم کے جبر اور تشدد کے ریکارڈ پر بات چیت کریں گی۔ اس کے برعکس، بھارتی نژاد امریکی شہری مودی کے استقبال کیلئے بے چین دکھائی دیے۔ ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹیو ایلون مسک کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی بھارت میں سرمایہ کاری اور ان کی الیکٹرک کار کو بھارت میں لانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ مسک نے کہا کہ منگل کو ان کی بھارتی وزیراعظم کے ساتھ بہت اچھی بات چیت ہوئی اور وہ پر امید ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں جلد کوئی اعلان کریں گے۔ یہ مذاکرات ایک ایسے موقع پر ہوئے ہیں جب ٹیسلا اور بھارت نے کار ساز کمپنی کو جنوبی ایشیائی مارکیٹ میں لانے کیلئے مراعات کے بارے میں بات چیت میں پیشرفت کی ہے۔ اسپیس ایکس کے نمائندوں نے حالیہ ہفتوں میں بھارت میں اسٹار لنک انٹرنیٹ سروس شروع کرنے پر بھی بات چیت شروع کی ہے۔ ایلن مسک کا کہنا تھا کہ وہ مودی کے مداح ہیں۔ وائٹ ہاؤس آج مودی کے اعزاز میں ایک سرکاری عشائیہ منعقد کرے گا، جو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے تعلقات کی علامت ہے۔ دونوں ملکوں نے نے تجارت اور ہتھیاروں کی فروخت جیسے شعبہ جات میں تعاون میں اضافہ کیا ہے۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلشنز کے ڈپٹری ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایڈورڈ مچل نے الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب وہ باتیں نہیں جو کسی غیر ملکی رہنما کو با آسانی حاصل ہو جائیں۔ جیسے جیسے چین کی معیشت گر رہی ہے، امریکا کے اعلیٰ کارپوریٹ ایگزیکٹوز مودی سے ملاقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ایپل کے سی ای او ٹم کک، گوگل کے سی ای او سندر پچائی، مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیا نڈیلا اور فیڈ ایکس کے سی ای او راج سبرامنیم جمعرات کو وائٹ ہاؤس کے عشائیے میں شرکت کرنے والے متعدد امریکی سی ای اوز میں شامل ہوں گے۔ ریاستی سطح پر دیا جانے والا یہ عشائیہ بھارت کیلئے پہلا ہے اور بھارت اسے بڑے موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ بھارت میں سابق امریکی سفیر فرینک وزنر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم مودی کے شاہی استقبال کیلئے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ متعدد ذرائع کے مطابق، دیگر کمپنیاں مثلاً میریٹ کے ٹونی کیپوانو اور کمنز کی جینیفر رمسی، جن کا بھارت میں اثر رسوخ ہے، اپنے سی ای اوز کو اس عشائیے میں بھیجیں گی۔ سب سے بڑا معاہدہ جنرل الیکٹرک کے ساتھ ہوگا جو ہندوستان ایروناٹکس کے ساتھ مل کر فوجی جیٹ انجن تیار کرے گا۔بھارت امریکا دفاعی تعلقات بالخصوص تنقیدی شیئر نگ اور دفاعی آئی پیز کے حوالے سے امکان ہے کہ اس میں بڑے ثمرات سامنے آئیں گے ۔ اٹلانٹک کونسل کی صفیہ غوری احمد کے مطابق ( جو ماضی مین سی این بی سی میں بھی کام کرتی رہی ہیں ) کا کہنا ہےکہ سی این بی سی کو پتہ چلا ہے کہ جنر ل اٹامک بھارت کو نئے قسم کے ڈرون بیچنے کے معاہدے کے قریب سےہے ۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب امریکا چینی صدر اور امریکی وزیر خارجہ کی متوقع ملاقات کے پیش نظر بھارت کے مودی کو مضبوط بناے کی کوشش کر رہا ہے۔ مودی جب امریکی صدر بائیڈن اور امریکی ادروں کے سربراہان سے ملین گے تو چین ایجنڈے کے آئیٹمز میں ایک ہوگا۔ بھارت اور امریکا دونوں چین کی طاقت کو مینیج کرنے میں مشترکہ مفاد رکھتے ہیں ۔ جمعہ کو مودی کی امریکی ٹیکنالوجی کے رہنماؤں سے علیحدہ ملاقات ہوگی جہاں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور چین پر انحصار کم کرنے کی کوششیں زیربحث آئیں گی۔ ایک طرف جہاں چینی معیشت کی رفتار سست پڑ رہی ہے اور ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے وہیں امریکی کارپوریٹ اداروں نے اس پر انحصار کم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔