ڈاکٹر طاہر یوسف، جنرل فزیشن
ٹائیفائیڈ بخار جسے میعادی بخار بھی کہا جاتا ہے، بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والا ایک انفیکشن ہے، جس میں مختلف اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ بخار ان ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں صفائی کے انتظامات ناقص ہیں۔پر ہجوم علاقے جہاں نکاسی آب کا مناسب نظام موجود نہ ہو، وہاں ٹائیفائیڈ کے کیسز کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
ہمارا ملک پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ٹائیفائیڈ بخار کے کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہر سال ہزاروں لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یوں تو ٹائیفائیڈ بچوں اور بڑوں دونوں کو متاثر کر سکتا ہے ،تاہم مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے بچوں میں ٹائیفائیڈ بخار بہت عام ہے۔
ٹائیفائیڈ کس وجہ سے ہوتا ہے؟
ٹائیفائیڈ کا سبب بننے والے “سالمونیلا ٹائفی” نامی بیکٹیریا آلودہ کھانے اور پانی کے ذریعے نظام ہضم میں داخل ہو کر انسانی خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ خون کی گردش کے ذریعے یہ بیکٹیریا مختلف اعضاء میں پہنچ کر وہاں اپنی افزائشِ نسل شروع کر دیتے ہیں۔ ان اعضاء میں سر فہرست چھوٹی آنت کے غدود ہیں۔
انفیکشن کے سبب چھوٹی آنت کے غدود میں پہلے ورم آجاتا ہے اور بعد ازاں آنت میں زخم بن جاتے ہیں۔اگر موزوں اور فوری علاج نہ کیا جائے تو چھوٹی آنت کے یہ زخم سوراخوں میں تبدیل ہو کر زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ آنتوں کے علاوہ یہ بیکٹیریا پتہ، پھیپھڑوں، دل اور دماغ تک پہنچ کر وہاں بھی انفیکشن کا سبب بنتے ہیں۔
علامات
ابتدائی علامات دس سے پندرہ دنوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم علامت اونچے درجے کا بخار ہے۔ ٹائیفائیڈ کے میعادی بخار کی مدت سات سے دس دن ہے۔ اس دوران جسم کا درجہ ٔحرارت بتدریج بڑھتے ہوئے ایک سو تین یا چار درجے فارین ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سر، پیٹ اور پٹھوں میں درد، اسہال(ڈائریا) اور قے(الٹی) وغیرہ کی شکایات بھی ہوتی ہیں۔ایک ہفتے بعد کمر اور سینے پر لال رنگ کے دھبے ظاہر ہوتے ہیں، اسہال کی شکایت بڑھ جاتی ہے اور تلی(سپلین) بڑھ جانے کی وجہ سے پیٹ بھی پھول جاتا ہے۔
اگر بروقت علاج شروع نہ کیا جائے تو دیگر اعضاء میں بھی مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ جیسا کہ کھانسی، پھیپھڑوں میں انفیکشن (نمونیا)، جگر پر ورم(یرقان)، دماغ کا انفیکشن وغیرہ۔ دماغ میں انفیکشن کی صورت میں مریض کا ذہنی توازن بگڑنے لگتا ہے اور مکمل بے ہوشی بھی طاری ہوسکتی ہے۔اس کا مرض خطرناک صورت اختیار کرلے تو چھوٹی آنت میں سوراخ بن جانے کے سبب مریض کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ٹائیفائیڈ کی تشخیص کیسے ہوتی ہے
ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے خون کی مکمل جانچ پر مبنی ٹیسٹ سی۔بی۔سی کروانا چاہیے۔ اگر خون میں سفید خلیوں کی مقدار کم معلوم ہو تو ٹائیفائیڈ کا امکان بڑھ جاتا ہے، تاہم ٹائیفائیڈ کی حتمی تشخیص کے لیے خون میں بیکٹیریا کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے ’’بلڈ کلچر‘‘ ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے بیکٹیریا پر اثر انداز ہونے والی مخصوص ادویہ یعنی اینٹی بائیوٹک کا بھی پتہ لگایا جاتا ہے ،جس سے بہتر علاج میں مدد ملتی ہے۔
علاج
یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے ،جس میں مخصوص اینٹی بایوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ابتدا میں ایک یا دو اینٹی بایوٹکس کے ذریعے علاج شروع کیا جاتا ہے۔اگر چند روز تک مرض کی شدت میں کمی واقع نہ ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی بایوٹک تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بخار کے لیے دوا کا استعمال کرنا مفید ہے۔ یاد رہے کہ ٹائیفائیڈ ایک میعادی بخار ہے۔ لہٰذا دواؤں کے باقاعدہ استعمال کے باوجود سات سے دس دن تک بخار چڑھتا اترتا رہتا ہے۔دیگر بہت سے بیکٹیریا کی طرح سالمونیلا ٹائفی میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں ٹائیفائیڈ کی ایسی اقسام منظر عام پر آئی ہیں جن کے خلاف بہت سی کارآمد اینٹی بایوٹکس بالکل بے اثر ہیں۔ یہ صورت حال خاصی پریشانی کن ہے۔مثلاً چند برسوں قبل منظر عام پر آنے والی ایک قسم جسے ’’ایکس۔ڈی۔آر ٹائیفائیڈ‘‘ کہا جاتا ہے، گزشتہ دنوں اس کے بہت کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل ’’ایم۔ڈی۔آر ٹائیفائیڈ‘‘ نے بھی ماہرین کو پریشان کیا تھا، جس کے خلاف صرف چند اینٹی بایوٹکس ہی مفید ثابت ہو ئی تھیں۔
کیا ٹائیفائیڈ سے بچاؤ ممکن ہے؟
صفائی ستھرائی کے بنیادی اصولوں پر عمل کر کے ٹائیفائیڈ سے بچا جا سکتا ہے۔کھانے پینے سے قبل ہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں۔پھل اور سبزیوں کو صاف پانی سے اچھی طرح دھو کر کھائیں۔ اپنے گھر اور ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔
علاوہ ازیں ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسینز بھی دستیاب ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے چند برس قبل ’’ٹائیفائیڈ کانجوگیٹڈ ویکسین‘‘ تیار کی گئی ہے۔ اس ویکسین کو 2019 ء میں متعارف کروایا گیا ہے۔ تحقیق کےمطابق یہ ویکسین لمبے عر صے تک ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے موثر ہے۔