اسلام آباد (ایجنسیاں،جنگ نیوز) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر مرکزی رہنما و وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے 5 نام شارٹ لسٹ کر لئے، حتمی فیصلہ اتحادی جماعتوں کی قیادت کریگی۔
تمام نامزد افراد سیاستدان ہیں، نگراں وزیراعظم کیلئے ڈار کانام پیش نہیں کیا، نگراں وزیراعظم کا نام ایک ہفتہ میں فائنل ہوجائیگا۔
آصف زرداری سے متعلق اعتبار کا بیان میرا ذاتی تھا، اب بھی ان سے متعلق احتیاط کرتا ہوں۔
جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ مدت پوری ہونے سے 48 گھنٹے قبل اسمبلی تحلیل ہوجائیگی، 90دن میں انتخاب پر کسی قسم کے ابہام کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ایک نام آیا اور مسترد ہوگیا۔
پختونخوا میں دہشت گردی سراٹھا رہی ہے، ریاست اس ناسور کو کچلنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعظم کیلئے پیپلز پارٹی نے 5 نام شیئر کر دیئے، نگراں وزیراعظم غیرجانبدار اور تگڑا ہونا چاہیے تاکہ الیکشن کرائے، نگراں وزیراعظم ایسا تگڑا ہو کہ آر ٹی ایس نہ بیٹھے، نگراں حکومت کو منتخب حکومت والے اختیارات دینے پر پی پی کواعتراض ہے،
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ن لیگ نے نگراں وزیراعظم کیلئے ہمیں 5 نام دے دیئے ہیں لیکن حتمی فیصلہ مشاورت سے ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق رانا ثناء خان نے جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ نگران وزیر اعظم کے لئے ایک نام آیا اوروہ مسترد ہوگیا، اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، یہ ایک افواہ ہوسکتی ہے جو خبر بنا کر لیک کی گئی، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سراٹھا رہی ہے، روز ہمارے جوان اور افسر شہید ہورہے ہیں، ریاست اس ناسور کو کچلنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔
رانا ثناء نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ جس دن قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کررہی ہے اس سے 48 گھنٹے قبل اسمبلی کو توڑا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 60 کی بجائے الیکشن کے انتظامات کے لئے 90دن میسر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تجویز زیر غور ہے کہ نگران سیٹ اپ میں کیا کوئی ٹیکنوکریٹ کے علاوہ کوئی اورنہیں ہوسکتا، کسی سابق بیوروکریٹ اور جج کے علاوہ کوئی سیاستدان نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے اوپر کوئی اتفاق رائے یا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاستدان ہوسکتا ہے تو پھر وہ یقیناً اسحاق ڈار بھی ہوسکتے ہیں اور اسحاق ڈار جیسا کوئی اور سیاستدان بھی ہوسکتا ہے، کسی اورجماعت کا کوئی لیڈر بھی ہوسکتا ہے، اگر اسکے اوپر کوئی اتفاق رائے نہیں ہوتا تو پھر یقیناً کوئی سابق بیوروکریٹ ہوسکتا ہے اور سابق جج ہوسکتا ہے لیکن اس میں ایک بنیادی چیز ہے کہ وہ ایک ایسا آدمی ہونا چاہئے جس کی اچھی شہرت ہو، اچھی ساکھ ہو، جس کے اوپر عمومی اتفاق رائے ہو سکتا ہو کہ یہ آدمی اس قابل ہے کہ اپنی ذمہ داری کو بہتر انداز سے ادا کرسکتا ہے۔