• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیکرٹ ایکٹ بل، سینیٹ میں اتحادی بھی شدید مخالف، قائمہ کمیٹی کے سپرد

اسلام آباد (ایجنسیاں)سینیٹ نے ایک صدی پرانے آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترمیم کے بل پر شدید مخالفت کے بعد سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا‘بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا جس کی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادیوں نے بھی شدید مخالفت کی‘اس موقع پر ایوان میں شدید نعرے بازی ہوئی ‘وزیرقانون اعظم نذیر تارڑکی آواز ’’نونو‘‘کے نعروں میں ہی دب گئی ‘ دھڑا دھڑ قانون سازی پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کڑی تنقید کرتے ہوئے احتجاجاً ایجنڈے اور بلز کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں‘ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے مجھے سینیٹ نہیں راجواڑے میں بھیجا گیا ہے‘ایسا لگتا ہے جیسے ان کے ہاتھ بندھے ہیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہےجبکہ جے یوآئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر قانون سازی اس طرح کرنی ہے تو ایوان سے واک آؤٹ کروں گا۔ تفصیلات کے مطابق موجودہ حکومت نے گزشتہ روز آفیشل سیکریٹ (ترمیمی) بل 2023 قومی اسمبلی سے منظور کرالیا تھا جس کے تحت خفیہ ایجنسیوں کو مکمل اختیارات دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ کسی بھی شہری کو قانون کی خلاف ورزی کے شبہ میں چھاپہ مار کر حراست میں لے سکیں گی۔ایجنڈے کے مطابق وزیر داخلہ نے بل کو منظوری کیلئے پیش کرنا تھاتاہم ان کی غیر موجودگی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا جس کی پیپلز پارٹی،جے یو آئی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کے علاوہ مسلم لیگ ن کے افنان اللہ نے مخالفت کی جس کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے آفیشل سیکریٹ (ترمیمی) بل 2023 قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا ۔ سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم نے فوجی تنصیبات کی تعریف کو وسیع کر دیا ہے اور اس میں مواصلات کے ڈیجیٹل اور جدید ذرائع کو قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے جس کے بعد ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سے وی لاگرز اور بلاگرز بھی قانون کے دائرے میں آسکتے ہیں۔دستاویز کی تعریف کو وسیع کر دیا گیا ہے کیونکہ اب اس میں فوج کی خریداریوں اور صلاحیتوں سے متعلق کوئی تحریری، غیر تحریری، الیکٹرانک، ڈیجیٹل، یا کوئی دوسرا ٹھوس یا غیر ٹھوس آلہ بھی شامل ہے۔اسی طرح مجوزہ قانون میں ʼدشمن کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو براہ راست یا بالواسطہ، جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کسی غیر ملکی طاقت، غیر ملکی ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر، تنظیم، ادارے، انجمن کے ساتھ کام کر رہا ہو وہ پاکستان کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانے کے جرم میں مجرم تصور کیا جائے گا۔ماہرین اس سیکشن کو انصاف کے اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ قانون کسی بھی قسم کے غیر ارادی رابطے کو منصوبہ بندی کے تحت کی گئی جاسوسی کے برابر سمجھتا ہے۔مجوزہ قانون انٹر سروسز انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کو بااختیار بنائے گا کہ وہ سرکاری رازوں کی خلاف ورزی کے شبے میں کسی بھی شہری کے گھر پر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر سکیں گے جبکہ محض خفیہ ایجنٹ کا نام ظاہر کرنا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔ سیکشن 11 میں ترمیم کے ذریعے ایوان زیریں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو وسیع اختیارات دئیے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی وقت، کسی بھی شخص یا جگہ پر بغیر وارنٹ داخل ہونے اور تلاشی لینے کی اجازت ہوگی اور اگر ضرورت ہو تو طاقت کا استعمال بھی کر سکیں گے اور اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی دستاویز، خاکہ یا ایسی کوئی بھی چیز ضبط کر سکیں گے جس کے ذریعے کسی جرم کا ارتکاب کرنے یا کیے جانے کا شبہ ہو یا پھر اگر وہ اس جرم کا ثبوت ہو۔سیکشن 6 میں ترمیم کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان یا مخبروں یا ذرائع کی شناخت کو ظاہر کرنے پر تین سال قید کی سزا کے ساتھ شہری پر جرمانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت مسلح افواج کی تنصیبات، مشقوں کی جگہ، تحقیقی مراکز پر حملہ بھی قابل تعزیر جرم تصور ہوگا اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں کی خلاف ورزی پر سزائیں اور جرمانے بھی بڑھا دئیے گئے ہیں۔فی الحال یہ جرم صرف جنگ کے دوران اس طرح کی نقل و حرکت تک محدود ہے، تاہم مجوزہ بل میں امن کے دنوں میں بھی یہ لاگو ہو سکے گا۔ اجلاس کے دور ان سینیٹ نے پاکستان ساورن ویلتھ فنڈ بل2023کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں چیئرمین سینیٹ نے فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنسز و ٹیکنالوجی اسلام آباد ترمیمی بل 2023 متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ بل اتنا آسان نہیں ہے۔

اہم خبریں سے مزید