• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں ایفائے عہد اور وعدے کی پاس داری کی اہمیت

مولانا نعمان نعیم

’’ایفائے عہد‘‘ یعنی عہد کو پورا کرنا، وعدے کی تکمیل اور قول و قرار پر قائم رہنا اسلامی تعلیمات کا امتیاز اور بندۂ مومن کی شناخت ہیں۔ ہر سطح اور ہر مقام پر راست گوئی، دیانت و امانت اور ایفائے عہد اسلام کے نزدیک انسان کی سیرت و کردار میں مطلوب ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی سوسائٹی اور کوئی انسانی معاشرہ اُس وقت تک ترقّی نہیں کرسکتا، جب تک اس کے نزدیک وعدے کی تکمیل اور ایفائے عہد کو بنیادی مقام حاصل نہ ہو۔ ’’ایفائے عہد‘‘ گویا معاشرے کے استحکام اور اس کے قیام کی یقینی ضمانت ہے۔

اس کے برعکس جس سوسائٹی اور معاشرے میں وعدے اور عہد کی پابندی نہ ہو، اسے بنیادی اہمیت حاصل نہ ہو، اُس معاشرے کے استحکام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی، وہ ایک زوال پذیر معاشرہ ہوگا، جہاں کمٹمنٹ کو بنیادی اہمیت حاصل نہ ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو معاشرہ اپنا اعتماد کھو بیٹھے، وہ اپنا اعتبار اور وقار بھی کھو دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے آخرت کا نظام یہ رکھا ہے کہ چیزوں کا مہیا ہونا انسان کی خواہشات کے تابع ہوگا، انسان جو چاہے گا فوراً اس کے لئے وہ چیز فراہم ہو جائے گی ، لیکن دنیا کا معاملہ اس سے مختلف ہے، یہاں انسان ایک چیز کی خواہش کرتا ہے؛ لیکن وہ اسے بر وقت پورا نہیں کر سکتا، وہ ایک چیز کا ضرورت مند ہوتا ہے، لیکن وہ چیز اسے بروقت مہیا نہیں ہوتی، اسی لئے انسان ایک دوسرے سے لین دین کا محتاج ہوتا ہے، اس لین دین میں اکثر عہد و پیمان کی نوبت آتی ہے ، اس لئے شاید ہی کوئی انسان ہو جسے زندگی کے مختلف مراحل میں خود وعدہ کرنے یا دوسروں کے وعدے پر بھروسا کرنے کی نوبت نہ آتی ہو، وعدہ کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسا اور اعتماد کرتا ہے اور بعض دفعہ اس اعتماد پر خود بہت سے معاملات طے کر گزرتا ہے، اس لئے وعدے کی بڑی اہمیت ہے۔

اسی لئے اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہوگا ۔ (سورۂ بنی اسرائیل ) قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے ، جو وعدے کو پورا کیا کرتے ہوں۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۲) ایک اور موقع پر بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنے وعدےکا پاس و لحاظ رکھتے ہوں۔ (سورۃ المومنون: ۸ ) خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔

رسول اللہ ﷺنے اپنی تعلیمات و ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی مذمت کو بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح بخاری) نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپﷺ نے نفاق قرار دیا ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم بات ہے، آپ ﷺ نے اپنے عمل کے ذریعے ایفائے عہد کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ اس کی نظیر ملنی دشوار ہے۔

عبد اللہ بن ابی الحمساءؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے آپ ﷺسے خرید وفروخت کی، آپ کی کچھ چیز باقی رہ گئی ، میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں یہاں لے کر آتا ہوں، میں بھول گیا، یہاں تک کہ آج اور آئندہ کل کا دن گزر گیا، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپﷺ اسی جگہ پر موجود تھے، آپ ﷺنے صرف اس قدر فرمایا : تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دنوں سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (سنن ابو داؤد)

وعدے کی پابندی اور ایفائے عہد کا یہی سبق آپﷺ سے آپ ﷺکے رفقاء نے پڑھا ، اور اپنی عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی وفات کا وقت آیا، تو فرمایا کہ قریش کے ایک شخص نے میری بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے اس سے کچھ ایسی بات کہی تھی جو وعدے سے ملتی جلتی ہے، تو میں ایک تہائی نفاق یعنی نفاق کی تین میں سے ایک علامت کے ساتھ اللہ سے ملنا نہیں چاہتا ، اس لئے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ۔( احیا ء العلوم : ۳ ؍۱۳۲) 

ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہ ؓ کی نگاہ میں وعدے کو پورا کرنے کی کس قدر اہمیت تھی ، دوست ہو یا دشمن، اپنا ہو یا بیگانہ ، اور مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہر ایک کے ساتھ عہد کی پابندی ضروری ہے، رسول اللہﷺ صلح حدیبیہ سے جوں ہی فارغ ہوئے حضرت ابو جندل خون میں لہو لہان اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تشریف لے آئے، اور مسلمانوں سے عرض کناں ہوئے کہ انھیں مدینہ لے جایا جائے، آپ ﷺنے اہل مکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ اس دفعہ سے جو مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ جانے والوں کو واپس کرنے کے سلسلے میں ہے، حضرت ابوجندل کو مستثنیٰ رکھا جائے، لیکن اہل مکہ نے نہیں مانا، چنانچہ بالآخر آپ نے انھیں واپس فرمادیا ، اسی طرح جن غیر مسلم قبائل سے آپ کے معاہدات ہوئے، آپ ﷺ نے ان معاہدات کا پورا خیال رکھا؛ بلکہ بعض دفعہ مخالفین کی عہد شکنی کو برداشت کرتے ہوئے بھی آپﷺ اپنے عہد پر قائم رہے۔

افسوس کہ اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروج ہوگئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قرض وغیرہ کے لین دین ہی سے وعدے کا تعلق ہے، حالاں کہ ہم زندگی کے تمام مراحل میں عہد و پیماں سے گذرتے ہیں، معاملات جتنے بھی ہیں، نکاح ، خرید و فروخت ، شرکت اور پارٹنر شپ ، دو طرفہ وعدے ہی سے عبارت ہے ، اسی لئے معاملات کو عقد کہا جاتا ہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدہ اور معاہدے کے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عہد کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔

نکاح کے ذریعے مرد وعورت کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے اخراجات کی ادائیگی کا عہد کرتا ہے اورعورت جائز باتوں میں شوہر کی فرماں برداری کا وعدہ کرتی ہے ، لہٰذا اگر شوہر بیوی کے ساتھ حق تلفی کرے یا بیوی شوہر کے ساتھ حکم عدولی تو نہ صرف حق تلفی اور حکم عدولی کا گناہ ہوگا ، بلکہ وہ وعدہ خلافی کے بھی گناہ گار ہوں گے ، بیچنے والا گاہک سے مال کے صحیح ہونے اور قیمت کے مناسب ہونے کا وعدہ کرتا ہے ، اگر وہ گاہک سے عیب چھپا کر سامان بیچے یا قیمت میں معمول سے زیادہ نفع وصول کرلے اورگاہک کو جتائے کہ اس نے معمولی نفع پر سامان فروخت کیا ہے ، تو یہ عقد تجارت کے ذریعے فریقین ایک دوسرے کے ساتھ جو عہد کرتے ہیں، اس کی خلاف ورزی ہے۔

جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں جو اوقات کار متعین ہوں، آپ ان اوقات میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا عہد کرتے ہیں، اگر آپ ان اوقات کی پابندی نہ کریں ، دیر سے دفتر پہنچیں ، پہلے دفتر سے نکل جائیں ، یا درمیان میں دفتر چھوڑ دیں ، یادفتر کے اوقات میں کاموں کو انجام دینے کے بجائے اپنے ذاتی کام کرنے لگیں ، تو یہ بھی وعدے کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔

وعدے کا تعلق ہماری تقریبات ، جلسوں اور دعوتوں سے بھی ہے، مثلاً دعوت نامہ میں لکھا گیا کہ نکاح عصر کے بعد ہوگا، لیکن جب تقریب میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں عشاء کے بعد تشریف لائے ، دعوت نامہ میں لکھا گیا کہ طعام ولیمہ ۸ بجے شب ہے ، لیکن حقیقی معنوں میں دعوت کی ابتداء دس بجے شب سے ہوئی ، کیا یہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ غور کیجئے کہ لوگ ایسی تقریبات میں شرکت اپنے تعلقات کی پاسداری میں کرتے ہیں، کسی کے یہاں بیماری ہے ، کوئی خود بیمار ہے، کسی نے تقریب کے وقت کے لحاظ سے آئندہ پروگرام بنا رکھا ہے، ایسے مواقع پر یہ تاخیر اس کے لئے کس قدر گراں گزرتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ جس دین میں وقت کا اتنا پاس و لحاظ ہو ، اسی دین کے ماننے والوں میں وقت کی اس درجہ ناقدری اور نا حق شناسی یہ سب باتیں وعدہ خلافی میں داخل ہیں۔

ہم جب کسی ملک کی شہریت اختیار کریں تو یہ اس ملک کے قوانین پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہے ، لہٰذا جب تک وہ قوانین اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں یا صریحاً ظلم پر مبنی نہ ہوں، ان قوانین کا پابند رہنا ہم پر واجب ہے اور اس کی رعایت نہ کرنا ملک کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی ہے، اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے ، غرض ، سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ ایک عہد کے پابند ہیں، بعض عہد ہم اپنی زبان سے کرتے ہیں ، بعض دفعہ عہد ملک کے شہری ہونے کے لحاظ سے از خود ہم سے متعلق ہو جاتا ہے، بعض دفعہ عہد کسی معاملے کی وجہ سے شرعاً ہمارے ذمہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ سماج کے عرف و رواج کی بنیاد پر بھی ہمارے لئے واجب العمل ہوتا ہے، ہم پر ان سب کی پاسداری ضروری ہے، مگر زندگی کے کتنے ہی مراحل میں ہم اپنے عہد و پیمان توڑتے ہیں اور وعدہ وفا نہیں کرتے، اس پر دقتِ ِنظر کے ساتھ غور کرنے اور وعدہ خلافی وبدعہدی کے گناہ سے بچنے کی ضرورت ہے۔