اسلام آباد(ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز افراد کے ٹرائلز کے خلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی‘نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے‘پاک فوج نے گولی نہ چلاکردرست اقدام کیا‘ہم آئین اور عوام کا دفاع کریں گے‘ آپ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق ملٹری کورٹ کے ذریعے سلب کرنا چاہتے ہیں‘فوج کو کسی بھی غیر آئینی اقدام سے روکیں گے اور آرمڈ فورسز کو غیرقانونی کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ جسٹس منیب اخترنے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فوجی عدالت میں سویلینز کا ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے‘بنیادی انسانی حقوق کو مقننہ/قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا ‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور دوسری پارلیمنٹ کچھ جرائم کو نکال دے یا مزید شامل کرے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جمعرات کو یہاں عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں عدالت سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف ازخود نوٹس کی استدعا کی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس موقع پر ریمارکس میں کہا کہ لارجر بنچ کا فیصلہ ہے کہ اکیلا چیف جسٹس ازخود نوٹس نہیں لے سکتا ‘انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ یہ ہمارے علم میں لائے، آپ کا شکریہ، اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ملک میں اس وقت مارشل لا جیسی صورتحال ہے ۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 175اور آرٹیکل 175/3 کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم آرمی ایکٹ کے حوالے سے دیئے گئے جرائم میں سویلینز کے ٹرائلز کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں، اب ہم آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ کوئی کیس ملٹری کورٹس میں کیسے جاتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی انسانی حقوق کا تصور یہ ہے کہ اگر ریاست چاہے بھی تو واپس نہیں لے سکتی کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت آئین پاکستان نے دے رکھی ہے۔