• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد علی سحر

نیہا کی پہلی سالگرہ قریب تھی۔ اس سالگرہ کو منانےکے لئے سارا گھر پرجوش تھا اور کیوں پرجوش نہ ہوتا، نیہا اس گھر کی پہلی پوتی جو تھی۔ جیسے جیسے سالگرہ کا دن قریب آرہا تھا، نیہا کے سارے چچا تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ نیہا کے والدین اور دادا، دادی، نیہا کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منانا چاہتے تھے۔ 

نیہا کے والد نہال احمد نے سارے کمرے کو وائٹ واش کروا لیا تھا۔ ادھر نیہا کی ماما نے نیہا کے لیے خوبصورت جوڑے بنوائے تھے جو نیہا نے اپنی پہلی سالگرہ پر زیب تن کرنے تھے۔ ایک دن نیہا کے چاچو اور پھپھو سالگرہ کے حوالے سے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لئے آئے تو سب نے ان کو سالگرہ کی پارٹی کے بارے میں جوش و خروش سے بتارہے تھے۔ 

ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ نہیا کے بھائی روحان نےکہا،’’ ارے آپ کو معلوم ہے ہمارے محلے میں تیسری گلی میں بھی ایک نیہارہتی ہے، اس کی بھی سالگرہ ہماری نیہا کی سالگرہ سے دو دن پہلے آتی ہے۔ ہماری نیہا کی تو پہلی سالگرہ ہے اور اس کی چوتھی سالگرہ ہے۔ اس کے امی، ابو ہر سال اس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے لیکن اس سال‘۔۔۔‘ روحان یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔

’’لیکن اس سال کیا۔۔۔؟‘‘پھپھو نے روحان سے پوچھا۔ روحان نے کہا،ابھی تین ماہ پہلے نیہا کے والدین کا ایک روڈ حادثے میں انتقال ہوگیا، دونوں کے انتقال کے بعد نیہا اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ رہتی ہے۔ کل اس کی دادی ہمارے گھر آئی تھیں جب ماما نے ان کو اپنی نیہا کی سالگرہ کے بارے میں بتایا تو وہ رونے لگیں۔ وحان کی یہ بات سن کر پھپھو نےکچھ سوچا اور روحان سے کہا۔ ’’تم مجھے ان کے گھر لے چلو۔‘‘وہ اُنہیں دوسری نیہا کے گھرلے گیا۔ نیہا کی دادی سے کچھ بات کی جسے سن کر وہ خوش ہوگئیں۔ واپس آکرپھپھونےاپنے والدسے کچھ بات کی۔ ااُن کی بات سن کر انہوں نے نیہا کے والدین سے کچھ کہا اور پھر سب کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ جب سب لوگ نیہا کے دادا کے کمرے میں آگئے تونیہا کی دادی نے کہا۔

’’بھئی ہم نے آپ سب کو اس لئے بلایا ہے کہ یہ بات آپ کو بتائیں کہ نیہا کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی جائے گی، گھر بھی سجے گا اور مہمان بھی آئیں گے لیکن یہ سالگرہ ہم اس یتیم بچی کے گھر منائیں اور اس کے گھر کو بھی سجایا جائے گا۔ آپ لوگ جلد جاکر اُن کے گھر کی سجاوٹ شروع کر دیں۔‘‘ یہ سن کر روحان نے کہا۔

’’دادی، یہ کیا، ہم نے تو اپنا گھر سجایا ہے، وہاں کیا مزہ آئے گا۔‘‘ لیکن دادا کے سمجھانے پر راضی ہوگیا پھر سب نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ پھر یوں ہوا کہ چھوٹی نیہا کی سالگرہ بڑی نیہا کی سالگرہ والے دن یعنی دو دن پہلے منائی گئی۔ گھر بھی سجایا گیا، خوب لائٹیں اور غبارے لگائے گئے اور پھر چھوٹی نیہا نے بڑی نیہا کے ساتھ مل کر سالگرہ کا بڑا سا کیک کاٹا۔ بڑی نیہا اور اس کی دادی بہت خوش تھیں۔چھوٹی نیہا کی دادی نے سالگرہ میں دیئے گئے تحفے دونوں میں آدھے آدھے بانٹ دیئے۔

بڑی نیہا بہت شاداں تھی۔ اس کی دادی یہ سب دیکھ کر رونے لگیں، چھوٹی نیہا کی دادی نے ان کو محبت سے گلے لگا لیا پھر کھانے کے بعد دادا نے سب مہمانوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ، ’’آج سے بڑی نیہا بھی میری پوتی ہے۔ میں اس کی کفالت کروں گا اور اس کی پڑھائی، کھانے پینے کا سارا خرچ اٹھائوں گا بلکہ ہر سال چھوٹی نیہا اور بڑی نیہا کی سالگرہ بھی ہم سب ایک ساتھ مل کر ہی منائیں گے۔‘‘ یہ اعلان سن کر تمام مہمان بہت ہی خوش ہوئے۔ سب نے زوردار تالیاں بجائیں۔ بڑی نیہا اور اس کی دادی کی خوشی تو دیکھنے والی تھی۔ یوں اس یہ سالگرہ بہت یادگار ٹھہری ۔