’’ہما! جب بھی شکیل کا خیال آئے، اُن کے لیے فاتحہ پڑھ لینا، اُن کی مغفرت کی دُعا کرنا۔‘‘ شکیل صاحب کی بیگم فری نمناک آنکھوں سے ہمیں کہہ رہی تھیں اور ہم انہیں دلاسہ دے رہے تھے۔ آپ فکر نہ کریں، وہ بڑے اداکار تو تھے ہی، لیکن اس سے بڑی بات یہ کہ بہت نیک انسان تھے۔ شوٹنگ کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا تو خاموش سے کونے میں جاکے سربسجود ہو جاتے۔ میک اَپ آرٹسٹ کو ہر تھوڑی دیر بعد اُن کے ماتھے پر موجود سجدے کے نشان کو فائونڈیشن اور پائوڈر سے چھپانا پڑتا تھا۔ اتنے عظیم فن کار تھے۔ سب کو اُداس کرکے رخصت ہو گئے۔
ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ روبینہ اشرف کےگھر پر سوئم تھا اور فن کار برادری شریک تھی۔ شکیل صاحب چونکہ سینئر بھی تھے اور ہردلعزیز بھی، لہٰذا لوگوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، جب ہم وہاں پہنچے تو فلم اسٹار نذیر بیگ، المعروف ندیم کیمروں اور مائیک کے سامنے اپنے تاثرات دے رہے تھے۔ روبینہ اشرف کے وسیع و عریض لان میں کرسیاں بچھی تھیں۔ کونے میں ایک میز پر چائے کا اہتمام تھا۔ ہم گھر کے اندر چلے گئے، خالد انعم اور اُن کی بیگم تہمینہ خالد پر نظر پڑی۔
ایک کونے میں عدنان صدیقی بیٹھے نظر آئے۔ عدنان صدیقی کو فاطمہ ثریا بجیا نے قاسم جلالی کے ڈرامے عروسہ سے متعارف کروایا تھا اور شکیل صاحب اس ڈرامے کے اہم کردر تھے۔ اداکارہ اور ہدایت کارہ مصباح اسحاق جو ان کہی، میں شہناز شیخ کی دوست بنی تھیں۔ معروف پروڈیوسر سلطانہ صدیقی، پی ٹی وی کے سابق جنرل منیجر ایم ظہیر خان اور ان کی اہلیہ حمیرا ظہیر بھی وہاں تھے۔ ظہیر خان صاحب کو دیکھ کر ہمیں بجیا کا ڈراما ’’افشاں‘‘ یاد آیا، جس میں شکیل نے لازوال اداکاری کی تھی۔ بہروز سبزوای اور اُن کی بیگم سفیہ، عدنان ٹیپو اور دیگر فن کار بھی شریک تھے۔
ہم نے سب سے پہلے شکیل کی بیٹی حِرا سے تعزیت کی۔ انہیں حیرت ہوئی کہ ہمیں اُن کا نام کیسے معلوم ہے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ برسوں پہلے پاکستان ٹیلی وژن پر بچوں کا ایک پروگرام ’’چمن اپارٹمنٹس‘‘ آتا تھا۔ اس میں ہم نے بھی کام کیا تھا۔ وہیں سیٹ پر جب ہم گڑیا تھامے ایک صوفے پہ بیٹھے تھے، تو شکیل نے بتلایا تھا کہ اُن کی بیٹی کانام ’’حِرا‘‘ ہے۔ حرا نے بتایا کہ والد صاحب کی کیروٹڈ شریان میں رکاوٹ کا مسئلہ تھا اور عید کے بعد اُن کی سرجری ہونی تھی۔ مرحوم کوجوڑوں کی بھی تکلیف تھی۔‘‘
ہم سوچ رہے تھے شکیل کتنے صابر شخص تھے۔انہوں نے نہ تو کبھی اپنی بیماری کسی پر ظاہر کی نہ حرفِ شکایت زبان پر لائے۔ شکیل صاحب کے بیٹے حیدر جو دبئی میں رہائش پذیر ہیں، وہ بھی عید کی تعطیلات میں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ہم نے غور کیا حرا کی شکیل اپنی والدہ سےبہت ملتی ہے اور حیدر اپنے والد کا عکس ہیں۔
شکیل کی اہلیہ ’’فری‘‘ کے پاس ہم جاکر بیٹھ گئے۔ وہ ہمیں عزم و ہمت کا پیکر لگیں۔ آخری بار جب ہم نے انہیں دیکھا تھا، وہ سمندر کے کنارے بنے سی ویو میں رہائش پذیر تھیں۔ ہم نے اپنی کتاب ’’یہ ہیں طلعت حسین، کے لیے شکیل کے تاثرات لینے کے لیے گئے۔ ہمارے ذہن میں وہ سب ملاقاتیں گردش کرنے لگیں۔ فری نے بتایا اب وہ ملیر کینٹ میں سکونت پذیر ہیں۔
افشاں، شی جی، وقت کا آسماں، بیس کیمپ (Base Camp)جیت، آنگن ٹیڑھا، ٹک ٹک کمپنی، منٹوراما، آندھی، زمین کالونی 52، زیر زبرپیش، انا ، چاند گرہن، تپش، سمیت بے شمار ڈرامے ہیں جن میں شکیل جلوہ گر ہوئے۔ اس کے علاوہ مشہور زمانہ فلم ’’جناح‘‘ میں لیاقت علی خان کا کردار ادا کیا۔29؍مئی 1945ء کو غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہونے والے یوسف کمال کا تعلق بھوپال سے تھا۔ اپنی ظاہری ہیئت میں تو وہ اسم باسمیٰ تھے ہی، لیکن باطنی طور پر بھی نہایت عمدہ انسان تھے۔ یوسف کمال سے شکیل کاسفر کامیابیوں، کامرانیوں اور عروج و شہرت سے بھرپور رہا۔
ٹیلی وژن ڈراموں میں ایسا نام کمایا کہ لوگ ان کی جیسی اداکاری کرنے کی تمنا کرنے لگے۔ فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، جیسے لکھاریوں کے ساتھ کام کیا اور بے مثال اداکاری کی۔ ہم اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ شکیل جیسے منجھے ہوئے اداکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ طاہرہ واسطی، مرحومہ کا تحریر کردہ ایک کھیل تھا، جو قاسم جلالی کی ہدایات میں ٹیلی ویژن پر نشر ہوا۔ وقت کا آسمان، سیریز کانام تھا۔ اس میں سائنسی نوعیت کے ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔
اس ڈرامے میں سرطان میں مبتلا ایک لڑکی کی کہانی کو پیش کیاگیا، جس کا علاج بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ حقیقی زندگی کے ایک واقعہ سے متاثر ہو کے طاہرہ واسطی نے اس ڈرامے کو لکھا تھا۔ ہم نے اس میں مرکزی کردار نبھایا۔ ہمارے ساتھ بہروز سبزواری اور جہاں آراحئی بھی ڈرامے کا حصہ تھے۔ شکیل اس ڈرامے میں ہمارے والد بنے تھے۔ اس زمانے میں وہ طاہرہ واسطی کے ساتھ مل کر ایک میگزین بھی شائع کرتے تھے۔ کیا زمانہ تھا۔ شوبزنس کے میگزین لوگ شوق سے پڑھتے تھے۔
ٹائٹل کور پر چھپنا بڑا اعزاز ہوتا تھا۔ پھر شکیل کے ساتھ ہم نے اور بھی بہت سے ڈراموں میں کام کیا۔ جن میں محمد بخش سمیجو کی آخری سیریل ’’جنت‘‘ سرفہرست ہے ۔ جنت میں شکیل، مصطفیٰ قریشی، نوید رانا، تنویر جمال، شگفتہ بھٹو نے بھی کام کیا۔ شکیل، آرٹس کونسل کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ بہت ہی نفیس اور تہذیب یافتہ شخص تھے۔
ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی بےساختہ اداکاری سے جھنڈے گاڑنے والے شکیل نے فلموں میں بھی کام کیا جن میں ہونہار، زندگی، چاہت، بادل اور بجلی، ناخدا، قابل ذکر ہیں۔ تاہم ان کی شناخت بہ طور ٹیلی ویژن کے اداکار مضبوط رہی، یوں تو انہوں نے اپنے فنی سفر میں کئی دہائیوں تک ٹی وی اسکرین پر راج کیا اور جس ڈرامے میں بھی کام کیا، وہ مقبول ہوا، لیکن ان کے نبھائے بعض کردار ایسے ہیں، جو ناقابل ِ فراموش ہیں اور لوگ ہمیشہ اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں جیسے حسینہ معین کا انکل عرفی، انور مقصود کے ڈرامے آنگن ٹیڑھا کا محبوب احمد اور حسینہ معین کا ہی شہرہ آفاق ڈراما ان کہی کا تیور۔
آج شکیل ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کا شفیق اور مہربان چہرہ ہماری آنکھوں میں، ذہن میں گھومتا ہے۔ 85 برس کی عمر میں وہ خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ ان کا فن ہمیشہ ہمیں ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ آمین