• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سے سنگین مسائل معاشرتی طور پر نہ صرف اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ بہت دیر تک ان کا سدباب یا حل مشکل ہوجاتا ہے۔ نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی انہی میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور میں نوجوانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نشے کی طرف مائل نظر آتی ہے اور اس کا سدباب کرنا ناگزیر ہوتاجارہا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دس میں سے 4 افراد بالخصوص28 فی صد نوجوان نشے کے امراض کا شکار ہیں،جس میں سے 9فی صد نابالغ ہے اور نو عمر بچوں کی ہے۔ نشے کا استعمال تاریخی لحاظ سے بہت پرانا عمل ہے۔

عموماً لوگ مختلف ادویات کے بے جا استعمال سے بھی اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ نشے کے استعمال کو اب بھی ایک معاشرتی مسئلے کے طورپر دیکھنے کے لیے ایک انفرادی مسئلہ سمجھا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی جاتی اور نشے کے فعل کو برائی سمجھنے کے بجائے نشے کے عادی فرد کو برا قرار دے دیا جاتا ہے اور یوں یہ مسئلہ جوں کا توں معاشرے میں پروان چڑھتا رہتا ہے۔ 

نشہ کا استعمال ترقی پذیر ممالک کے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ زیادہ آبادی اور کم وسائل کی بنا پر اس کی روک تھام اور کنٹرول ناممکن ہوگیا ہے۔ زیادہ تر نوجوان طبقہ اس مرض میں مبتلا ہے اور اس کے نقصانات سے دوچار نظر آتا ہے۔ اسی لیےنشے کوایک عادت سمجھنے کے بجائے اسے ایک مرض کے طور پر سمجھا جائے تو اس کے سدباب اور روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ اے پی اے کے مطابق نشے کی عادت ایک مرض ہے۔ اس کی درج ذیل علامات ہوسکتی ہیں۔

٭ نشہ آور اشیاء یا ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا۔

٭نشے کی عادت کو چاہ کے بھی نہ روک پانا۔

٭زیادہ تر وقت نشہ آور اشیاء کے حصول اور استعمال میں صرف کرنا۔

٭نشے کی بے جا طلب ہونا۔

٭نشے کے استعمال کی وجہ سے اپنے روز مرہ کاموں میں دھیان نہ دینا۔

٭اپنی معمولات زندگی نشے کی و جہ سے ترک کرنا۔

٭نشے کا بار بار خطرناک حد تک استعمال کرنا۔

٭یہ جانتے ہوئے بھی نشے کا استعمال کرنا کہ اس سے آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہورہی ہے۔

٭نشے کے استعمال کی پہلے والی مقدار کا ناکافی ہونا اور ضرورت سے زیادہ اس کی طلب ہونا۔

٭نشے کے استعمال کو وقتی طور پر ترک کرنے کے علامات کا شکار ہونا۔

تمام عوامل کی شدت کم، درمیانہ اور زیادہ ہوسکتی ہے۔ جیسے ان علامات سے کم سے کم 6یا زیادہ علامات کا ہونا مرض کے شدت اختیار کرنے کی نشاندہی کرتاہے۔نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی بلند شرح کو مختلف وجوہات سے منسوب کیا جاتاہے اور اس کے مجموعی طور پر افراد اور معاشرے دونوں پر اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس کے ممکنا اثرات اور مضمرات میں اہم کردارادا کرنے والے چند اہم عوامل یہ ہیں۔ ساتھیوں کا دباؤ، نوعمر اور بالخصوص نابالغ افراد کی اکثریت ایسے ساتھیوں کے دبائو کی و جہ سے نشے کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اپنے سماجی حلقوں میں فٹ ہونے یا قبول کیے جانے کے لئے نشے کا تجربہ کرنے سے بھی ان کے مستقل استعمال کا آغاز ہوتا ہے۔

دوسری اہم وجہ ہے تجسس۔ نوجوان عموماً نشے کے اثرات سے نابلد ہوتے ہیں اور اس کے بظاہر اچھے نظر آنے والے عوامل کی بنا پر متجسس ہوسکتے ہیں۔ فہم جوئی، نئے تجربات کی تلاش میں عموماً منشیات کا تجربہ کیا جاتا ہے۔تیسری اہم وجہ تنائو اور ذہنی صحت کے مسائل ہیں۔ نوجوان اضطراب، تنائو اور ڈپریشن کا شکار نظر آتی ہے اور اس طرح کے دیگر ذہنی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے نشے کا استعمال نوجوانوں کو مستقل طور پر اس کی طرف مائل کرتا ہے۔ 

چوتھی اور اہم وجہ خاندانی مسائل ہیں۔ خاندان یا فیملی کے اندر ایک ناکارہ شخص ہونے کا تاثر، والدین کے جھگڑے، مالی مدد کا فقدان یا گھر میں نشہ آور اشیاء کا استعمال نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے ممکنہ وجوہات میں سب سے اہم مسئلہ ہوسکتا ہے۔ عموماً نو عمر افراد اپنے گھر میں نشے کے استعمال کی و جہ سے اس کو عادتاً اختیار کرلیتے ہیں۔ باپ، دادا یا گھر کے بڑے افراد کے نشے کے استعمال کی عادت کو فطری طور پر اختیار کرلینے سے نو عمرافراد اس کو استعمال کرنا شروع ہوجاتے ہیں جوا ٓگے چل کر ایک ذہنی مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

ایک اور اہم وجہ میڈیا بالخصوص Visual میڈیا میں نشے کے استعمال کی گلیمرائزیشن ہے۔ فلموں، موسیقی اور سوشل میڈیا میں منشیات کے استعمال کو معمولی طرح نشر کرنا اور اس کو سوسائٹی میں ایک اچھے عمل کے طور پرپیش کرنا اس کو ایک قابل مقبول عمل اور رویئے کے طور پر اس کی تشکیل کرنا ہے، جسے نوجوان ایک فطری عمل کے طور پر تصور کرتا ہے۔ منشیات تک آسان ر سائی، منشیات کی دستیابی خاص طور پر شہری اور دیہی علاقوں میں اس تک رسائی اور فروغ اس کے حصول کو ممکن بنادیتی ہے۔

نشے کے سدباب کے لئے سب سے پہلے اس کے استعمال کو فروغ دینے والے عوامل کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے استعمال سے ہونے والے اثرات کا علم ہونا بھی اس کے روک تھام کے لئے بے حد ضروری ہے۔ نشے کے استعمال سے ہونے والے چند چیدہ چیدہ اثرات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

جیسے کہ نشے کے استعمال سے صحت پر خطرات کا لاحق ہونا۔ نشے کے استعمال سے جسمانی اور ذہنی صحت پر سنگین نتائج ہوسکتے ہیں خاص طور پر جسم کی نشونما پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے ۔ نشے کے استعمال سے دماغ کےسوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور یوں جسمانی امراض اور حادثات وغیرہ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

دوسرا اہم مسئلہ جو نشے کے استعمال سے ہوتا ہے۔ وہ ہے تعلیمی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کامعدوم ہونا، منشیات کا استعمال ایک نوجوان کی اسکول/کالج میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے یا مستقل ملازمت کو برقرار رکھنےکی صلاحیت کو مستقل طور پر متاثر کرسکتا ہے جو ان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگیوں میں ممکنہ طور پر ایک طویل مدتی رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک اور سنگین مسئلہ جو منشیات کے استعمال سے وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ ہے جرائم کی سطح میں اضافہ ہونا۔ منشیات کا استعمال مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے اور بڑھتے ہوئے امکان کےساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ نشے کے عادی افراد اپنی منشیات کی عادات کو پورا کرنے کے لئے غیر قانونی سرگرمیوں، چوری، ڈاکہ زنی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس طرح نوجوانوں میں منشیات کا استعمال پیداواری صلاحیت میں کمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروںکے علاج کے پروگراموں اور اقتصادی صلاحیت کو کھونے سے متعلق اخراجات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

نشے کا استعمال خاندان، دوستوں اور شرکت داری کو کشیدہ کرسکتا ہے، جس سے ذاتی،معاشرتی اور سماجی طور پر پشیمانی کا شکار ہوتا ہے اور یوں باہمی تعاون کی فضا قائم نہیں رہتی۔ الغرض، نوجوانوں اور نو عمرا فراد میں منشایت کے زیادہ استعمال کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں تعلیمی روک تھام کے پروگرام، صحت کے حصول، علاج تک بہتر رسائی، سماجی اور معاشی عوامل کو حل کرنا جیسے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 

ابتدائی مداخلت اور نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے پھیلائو کو کم کرنے اوراس کے طویل مدتی اثرات کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں میں ذہنی صحت اور معاونت کو بہتر بنانے کے لئے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول سرکاری ایجنسیاں، تعلیمی ادارے، صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ادارے، خاندان اور کمیونٹی شامل ہیں۔ 

اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی کو ممکن بنایا جائے، تاکہ نوجوان ضرورت کے وقت اپنے ذہنی مسائل کا سدباب کرے نہ کہ نشے کا استعمال کرنے، اسکولوں میں ذہنی صحت سے متعلق پروگرامز کا فروغ کرنا چاہیے۔ جہاں طلباء کو صحت مند ماحول ملیں ،تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں اور ایک صحت مند مقابلہ ممکن ہوسکے۔ اسکول میں کاؤنسلر اور ماہر نفسیات کا موجود ہونا طلباء کو ان کی شناخت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اسی طرح نصاب میں نشے کے استعمال اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں آگہی فراہم کرنا۔ اس امر کو یقینی بنانا کہ نوجوان اس کے مضر اثرات کو پہچان سکیں اوراس سے اجتناب کے رویے کوا پناسکیں۔ ایک اور اہم امر یہ ہے کہ پیئر سپورٹ پروگرام تشکیل دیئے جائیں۔ جہاں نوجوان اپنے ہم عمر ساتھیوں سے رابطہ کرسکیں اور ایسے افراد سے تعاون کرسکیں جنہوں نے اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کیا ہو۔

اساتذہ کو بھی ذہنی صحت اور نشے کے اثرات کے متعلق آگاہی اور تربیت دینا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ اس کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں اہم کردارادا کرسکیں۔ اس طرح کے سماجی حکمت عملیوں کے پھیلاؤ سے نشے کے استعمال اور اس کے عمومی اثرات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

صحت سے مزید