یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ اسلام نے مذہبی رواداری کی محض تلقین ہی نہیں کی، بلکہ اسے اسلامی مملکت کے دستور کے جزو لاینفک کے طور پر متشکل کر دیا۔ تمام مفتوح اقوام اور غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ انہیں مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی، ان کے جان و مال، عزت و آبرو اور عقیدہ و مذہب کادین اسلام اوراسلامی ریاست میں جس قدر تحفظ کیا گیا تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ جس رواداری، وسعت قلبی، عالی حوصلگی اور رواداری کا عملی اور تعلیمی نمونہ پیش کیا۔ دنیا کا کوئی مذہب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ قانون بین الاقوام کے ماہر اور سیرت نگارڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں!’’قرآن مجید میں یہ اصول ملتا ہے کہ ہر مذہبی کمیونٹی کو کامل داخلی خودمختاری دی جائے، تاکہ نہ صرف عقائد کی آزادی ہو اور اپنی عبادات وہ اپنی طرز پر کر سکیں بلکہ اپنے ہی قانون اپنے ہی ججوں کے ذریعے اپنے مقدمات کا فیصلہ بھی کروائیں۔
کامل داخلی خودمختاری کا قرآن کی کئی آیات میں ذکر ہے، جن میں سے ایک آیت بہت ہی واضح ہے! یعنی انجیل والوں کو چاہئے کہ اس چیز کے مطابق احکام دیا کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کی ہے۔ ان احکام کے تحت عہد نبویﷺ ہی میں خودمختاری ساری آبادی کے ہر گروہ کو مل گئی تھی، جس طرح مسلمان اپنے دین، عبادات، قانونی معاملات اور دیگر امور میں مکمل طور پر آزاد تھے، اسی طرح دوسرے مذاہب و ملت کے افراد کو بھی عقیدہ و مذہب کی کامل آزادی حاصل تھی۔ ( خطباتِ بہاولپور ص 414، ص 415)
ہجرتِ مدینہ کے بعد رسالت مآبﷺ نے یہود مدینہ کے ساتھ تاریخ ساز معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ کیا جو غیر مسلم رعایا کے ساتھ پیغمبر اسلام ﷺ کا پہلا معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ مذہبی رواداری اور فراخ دلی کی ایک ایسی مثال ہے جس پر دنیا فخر کر سکتی ہے۔
’’میثاق مدینہ‘‘امام الانبیاء، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبر کا مثالی اور تاریخی شاہکار ہے جس سے اسلامی سوسائٹی کے مقاصد، پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری، قیام امن اور انسانی اقدار کے تحفظ میں بھرپور مدد ملی، ایک عظیم الشان ریاست کی تاسیس اور تنظیم و تدبیر، سرکار دوعالم ﷺکا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش نہیں کر سکتی۔
اس تاریخی معاہدے کی بدولت اسلامی ریاست کے غیر مسلموں اور مختلف المذاہب افراد و اقوام کے حقوق و فرائض اور مذہبی آزادی اور رواداری کا اصول وضع ہوا، چنانچہ یہود مدینہ اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی رواداری پر مبنی اس تاریخی صحیفہ کی بدولت مندرجہ ذیل حقوق و مراعات حاصل ہوئیں۔
(1) اللہ کی حفاظت و ضمانت ہر فریق کو حاصل ہے۔(2) امت کے غیرمسلم افراد کو بھی مسلمانوں کی طرح سیاسی اور مذہبی حقوق حاصل ہیں۔ امت کے ہر گروہ کو مکمل مذہبی آزادی اور اندرونی خود مختاری حاصل ہے۔3) امت کے دشمنوں سے مسلم اور غیرمسلم دونوں مل کر جنگ کریں گے اور مشترکہ طور پر اخراجات جنگ برداشت کریں گے۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں۔ (ڈاکٹر مشیر الحق ندوی، رسول اکرمﷺ اور یہود حجاز، ص 82)
نامور عرب محقق اور سیرت نگار محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں!’’یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت حضرت محمد ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ انسانی معاشرے میں قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا، انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔ (محمد حسین ہیکل، حیات محمد (عربی) قاہرہ 1947ء ص 227)
اسلامی ریاست کےغیر مسلموں کے ساتھ مذہبی رواداری اور ان کے حقوق کے تحفظ کی یہ تاریخ ساز دستاویز اور اس کی دفعات اپنی حقیقت پر آپ گواہ ہیں۔ مذہبی رواداری، امن و سلامتی اور عدل وانصاف کا ہر جوہر اس میں موجود ہے۔
اسلام تمام طبقات انسانی کے لئے رحمت بن کر آیا ، اس نے غیر مسلم رعایا کو بھی اس سے محروم نہیں رکھا، اور انہیں اتنے حقوق دیئے جس کی نظیر مذاہب عالم کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی، آنحضرتﷺ کے مبارک دور میں قریب قریب پورا جزیرۃ العرب زیر نگیں ہو چکا تھا، غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلا معاملہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آیا، انہیں آپﷺ نے جو حقوق دیئے، وہ اب تک تاریخ میں محفوظ ہیں، جنہیں ہم بعینہ نقل کرتے ہیں:’’نجران اور اس کے اطراف کے باشندوں کی جانیں ،ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال ان کے حاضر و غائب، ان کے قافلے، ان کے قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسولﷺ کی ضمانت میں ہیں، ان کی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہ کیا جائے گا، اور نہ ان کے حقوق میں سے کسی حق میں دست اندازی کی جائے گی۔ کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدے سے نہ ہٹایا جائے گا اور جو بھی کم یا زیادہ ان کے قبضے میں ہے، اسی طرح رہے گا، ان کا زمانہ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ انہیں ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا، ان سے جو شخص سود کھائے گا، وہ میری ضمانت سے بری ہے۔‘‘
اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے، اس کے ایفاء کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد النبی ﷺکی ذمہ داری ہے۔ یہاں تک کہ اس بارے میں اللہ کا کوئی دوسرا حکم نازل نہ ہو، جب تک وہ لوگ مسلمانوں کے خیرخواہ رہیں گے، ان کے ساتھ جو شرائط طے کئے گئے ہیں، ان کی پابندی کریں گے، انہیں ظلم سے کسی بات پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ (البلاذری، فتوح البلدان، قاہرۃ دارالنشر 1957ء، ص 72، نیز دیکھئے ڈاکٹر محمد حمیداللہ، الوثائق السیاسیتہ فی العہد النبویﷺ قاہرۃ 1941ء ص 81-80)
اس معاہدے سے اسلامی ریاست کے غیر مسلم باشندوں یعنی ذمیوں کےحسب ذیل حقوق متعین ہوتے ہیں:1۔ ان کی جان محفوظ رہے گی۔2۔ان کی زمین، جائیداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔3۔ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی، مذہبی عہدیدار اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔4۔صلیبوں اور گرجا گھروں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔5۔ان کی کسی چیز پر قبضہ نہ کیا جائے گا۔6۔ ان سے فوجی خدمت نہ لی جائے گی۔7۔اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔8۔ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔9۔ان کے معاملات و مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا۔10۔ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔11۔سودخوری کی اجازت نہ ہو گی۔12۔کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے نہ پکڑا جائے گا۔13۔اور نہ انہیں کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔
اس زمانے کی مہذب حکومتیں بھی اپنی ریاست میں دیگر مذاہب کے باشندوں کو اس سے زیادہ حقوق اور کیا دے سکتی ہیں، ان میں وہ ساری چیزیں آ گئی ہیں جو ایک محکوم کے حقوق کے تحفظ اور اس کی باعزت زندگی کے لئے ضروری ہیں، اس سے زیادہ حقوق انہیں خود اپنی حکومت بھی نہ دے سکتی۔
اسی زمانے کے لگ بھگ آنحضرتﷺ نے کوہ سنائی کے قریب واقع راہب خانہ سینٹ کتھرین کے راہبوں کو، بلکہ سارے عیسائیوں کو ایک سندنامہ حقوق (Charter) عطا فرمایا جس کے بارے میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ وسعت ظرفی اور رواداری کی جو اشرف ترین یادگاریں پیش کر سکتی ہے ،یہ ان میں سے ایک ہے۔ یہ دستاویز، جسے مورخین اسلام نے حرف بہ حرف قلم بند کیا ہے، وسعت نظر اور مذہبی روادار ی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔
اس دستاویز کی رو سے عیسائیوں کو چند ایسی استثنائی مراعات حاصل ہوئیں جو انہیں اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے تحت بھی نصیب نہ ہوئی تھیں۔ آنحضرتﷺ نے اعلان فرمایا کہ اس دستاویز میں جو احکام مندرج ہیں، اگر کوئی مسلمان ان کی خلاف ورزی کرے گا یا ان سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو اسے معاہدہ الٰہی سے روگردانی کرنے والا، اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا اور اس کے دین کی تذلیل کرنے والا تصور کیا جائے گا۔ آپﷺ نے ریاست مدینہ میں عیسائیوں کی حفاظت، ان کے گرجاؤں اور ان کے پادریوں کے مکانوں کی پاسبانی اور انہیں ہر طرح کے گزند سے بچانے کی ذمہ داری اپنی ذات پر بھی اور اپنے متبعین پر بھی عائد کی۔
ان سے یہ وعدہ کیا گیا کہ* ان پر کوئی ناجائز ٹیکس نہ لگائے جائیں گے۔*ان کا کوئی پادری اپنے علاقے سے نہ نکالا جائے گا۔* کسی عیسائی کو اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔* کسی راہب کو اس کے راہب خانے سے خارج نہ کیا جائے گا اور* کسی زائر کو سفر زیارت سے نہ روکا جائے گا۔* انہیں اس کی بھی ضمانت دی گئی کہ کوئی گرجا مسمار نہ کیا جائے گا۔* جن عیسائی عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کر رکھی تھی، انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہنے کی مجاز ہوں گی اور اس بارے میں ان پر کوئی جبر و اکراہ نہ کیا جائے گا۔ انہیں باضابطہ امداد دی جائے گی۔* اس امداد کو ان کے مذہب میں شریک ہونے سے تعبیر نہ کیا جائے گا ،بلکہ اسے حاجت مندوں کی حاجت براری اور اللہ اور اس کےرسولﷺ کے ان احکامات کی اطاعت سمجھا جائے گا جو عیسائیوں کے حق میں صادر کئے گئے تھے۔* اگر مسلمان کسی بیرونی عیسائی طاقت سے برسر جنگ ہوں گے تو مسلمانوں کی حدود کے اندر رہنے والے کسی عیسائی سے اس کے مذہب کی بناء پر حقارت کا برتائو نہ کیا جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان کسی عیسائی سے ایسا برتائو کرے گا تو وہ رسول ﷺ کی نافرمانی کا مرتکب تصور ہو گا۔
جو شخص بدی کا بدلہ بدی سے دینے کی طاقت رکھتا ہو، لیکن اس کے باوجود عفو و درگزرکے اصول کی نہ صرف تلقین کرے بلکہ اس پر عمل بھی کرے، اس کی سیرت سے متعلق انسانوں کے دل میں ہمیشہ عظمت و بزرگی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔جب آنحضرتﷺ رئیس مملکت اور رعایا کی جان و مال اور عزت و ناموس کے محافظ کی حیثیت سے عدل کرتے تھے تو آپ ﷺہر مجرم کو اس کے جرم کی پوری پوری سزا دیتے تھے۔ لیکن رسول خدا اور معلم اسلام کی حیثیت سے اپنے بدترین دشمنوں سے بھی نرمی اور رحم کا سلوک کرتے تھے۔ آپﷺ کی ذات میں وہ افضل ترین صفات جن کا تصور انسان کر سکتا ہے، یعنی عدل اور رحم مجتمع تھیں۔
اسی تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے یورپ کا مشہور مورخ ایڈورڈ گبن (EDWARD GIBBON) لکھتا ہے! ’’عیسائی رعایا کے لئے محمدﷺ نے بلا تامل ان کے جان و مال کا تحفظ، پیشہ کی آزادی اور مذہبی رواداری کی ضمانت دی۔‘‘
یہ تمام تعلیمات اس حقیقت کی ترجمان ہیں کہ اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم باشندوں(ذمیوں) کے ساتھ ہمیشہ عدل و انصاف پر مبنی طرز ِعمل اختیار کیا گیا۔ نیز یہ کہ ایک اسلامی ریاست کی یہ ذمے دار ی ہے کہ وہ ریاست میں آباد تمام باشندوں کے حقوق کا بلاتفریق مذہب و ملت تحفظ کرے۔اگر اس تناظر میں گزشتہ دنوں جڑانوالہ (فیصل آباد)میں رونما ہونے والے واقعے کو دیکھا جائے تو بلاشبہ، ایک اسلامی ریاست میں اس طرح کا واقعہ حد درجہ افسوس ناک اور شرم ناک ہے۔ اسلامی ریاست کی یہ ذمے دار ی ہے کہ وہ ریاست میں آباد غیرمسلموں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
کسی فرد واحد کے جرم اور مذہبی گستاخی پر مبنی طرزِ عمل کی سزا پوری کمیونٹی کو دینا قطعی طور پر غیراسلامی طرز عمل اور اسلامی تعلیمات کے قطعی منافی ہے۔ اگر کسی نے کوئی گستاخی کی ہے تواس کاقانونی راستہ موجود ہے، اس کے ردعمل میں ان کی عبادت گاہوں کونذر آتش کرنایا پرامن شہریوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ طرز عمل درحقیقت اقوام عالم میں دین اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بدترین اور گھناؤنی سازش ہے۔ تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور اسلام کو بدنام کیا جاسکے۔
یقیناً یہ واقعہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ قرآن مجید کی بے حرمتی ، گرجا گھروں پر حملے، ریاست میں آباد پرامن غیر مسلم شہریوں کو نشانہ بنانا اسلامی تعلیمات کے قطعی منافی اور دونوں جرم ہیں۔ انہیں سزا دینا ریاست اور قانون کی ذمے داری ہے۔ ایسے واقعات کی آڑ میں مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر افشانی میں مصروف عمل ہے۔ اسلامی مملکت میں امن وامان کو یقینی بنانا اور ریاست کے تمام باشندوں کو تحفظ وسلامتی کی ضمانت دینا اسلامی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام ذمیوں کے تحفظ کی پورے طور پرضمانت دیتا ہے۔