ریان عروبہ
اتوار کا دن تھا۔ ہم اپنے کمرے میں بیٹھے بور ہورہے تھے کہ اچانک ایک خیال ہمارے دماغ میں آکر مچلنے لگا اور پھر ہم نے فوراً اپنے بھائی سے کہا کہ ’’کیوں نہ ہم خالہ کے گھر چلیں، وہاں خالہ کے بچوںفضا اور روحان کے ساتھ مل کر کھیلیں گے ، کتنا مزا آئے گا۔‘‘ بھائی نے کہاکہ ’’آئیڈیا تو اچھا ہے، مگر امی ابو کو راضی تم کرو گی۔‘‘ ہم نے فوراً حامی بھرلی اور امی کے پاس دوڑ لگادی ان سے پوچھا کہ ’’خالہ کے گھر چلیں‘‘ تو امی نے کہا ’’مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ابو سے بات کر لو۔‘‘ ہم دوڑتے ہوئے ابو کے پاس گئے اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے ابو نے ہماری شکل پر لکھی فرمائش پڑھ لی ہری جھنڈی دکھا کر بولے ’’بھئی آج کہیں جانے کی بات مت کرنا آج سی این جی بند ہےا ور گاڑی میں سی این جی الکل نہیں ہے۔‘‘ ’’کوئی بات نہیں ابو ہم بس میں چلتے ہیں۔‘‘ ہم نے جھٹ کہا۔
ابو نے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا ’’نہ بابا نہ یہ مشکل کام ہے‘‘ ۔ ہم بھی ہار ماننے والے نہ تھے۔ ہم نے بھی ابو کو راضی کر کے چھوڑا۔ قصہ مختصر ہم سب جلدی جلدی تیار ہوکر گھر سے نکلے امی نے کہا ’’خالہ کے گھر اتنے دنوں بعد جارہے ہیں کچھ خرید لیتے ہیں۔‘‘ کچھ دیر بعد ہمیں کیلے والا نظر آیا ہم نے اس سے کیلے خریدے اور خراماں خراماں بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں دور سے بس آتی نظر آئی، جیسے ہی بس رکی تو جو لوگ بس اسٹاپ پرکھڑے تھے ،ان سب کے جسموں میں گویا جان آگئی اور وہ چھلانگ مار کر بس کی طرف بھاگے۔ ہم بھی جیسے تیسے بس میں چڑھ گئے۔ وہ بس پہلے ہی بہت بھری ہوئی تھی۔ ہم بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک کونے میں کھڑے ہوگئے۔
ابھی ہم خالہ کے گھر کا تصور کر ہی رہے تھے کہ اچانک ہی کچھ خواتین نے چلانا شروع کردیا۔ ڈرائیور نے فوراً بس روک دی اور معلوم کیا کہ کیا ہوا۔ تو ان خواتین نے رونی صورت بناکر کہا ’’بس میں چوہا ہے۔‘‘ بڑے جتن کے بعد لوگوں نے بس میں چوہا بھگایا اور بس دوبارہ روانہ ہوئی۔ ابھی بس کو چلے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ایک دھکا لگا اور اگلے ہی لمحے ہم پیچھے بیٹھی آنٹی کی گود میں تھے۔ ان آنٹی نے بدلہ لینے کے لیے اپنے منے کی ناک ہمارے دوپٹہ سے صاف کردی۔
ابھی ہم اس افتاد سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ امی آئیں اور پوچھا، ’’کیلے کہاں ہیں؟؟‘‘ ہم نے پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا توایک خاتون بڑے مزے سے ہمارے کیلے اپنے بچوں کو کھلا رہی تھیں۔ اب ہم سوائے ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہ کرسکتے تھے۔ پیچھے سے ابو اور ایک آدمی بحث کرتے نظر آئے۔ پتہ چلا کہ ابو کی جیب کٹ گئی ہے اور پیسے بھی گئے۔ اب کنڈیکٹر نے کہا، ’’آپ اگلے اسٹاپ پر اتر جائیں۔‘‘ ہم افسوس کر کے کھڑے ہوگئے۔ اچانک ہماری بے ساختہ چیخ نکل گئی اور ہمیں دن میں تارے نظر آنے لگے کیونکہ ہمارے پیچھے منی صاحبہ بڑے جوش و خروش سے ہمارے بال نوچ رہی تھیں۔ ہم نے بڑی مشکل سے اپنے بال چھڑائے۔ اتنی دیر میں اسٹاپ آگیا اور ہم شرمندہ شرمندہ بس سے اتر گئے۔
یہاں سے رکشہ لے کر خالہ کے گھر رواں دواں ہوئے۔ اس وقت ہماری یہ حالت تھی کہ خالہ کے گھر پہنچ کر خالہ سے لے کر رکشہ والے کو پیسے دیئے۔ ابو کا غصے سے برا حال تھا اور پشتارہے تھے کہ انہوں نے بچوں کی ضد کیوں مانی۔ ہم نے بھی توبہ کرلی کہ اب کبھی اس طرح کی ضد نہیں کریں گے۔