تفہیم المسائل
سوال: میں نے اپنی بیوی سے جھگڑے کے دوران کہا: جب تم کو نہیں رہنا تو چلی جاؤ ،ویسے بھی تمہاری خاص ضرورت نہیں ہے، اس نے کپڑے باندھے اور کہا :جب تک تم فیصلہ نہیں دو گے، میرے سامنے نہیں بولوگے ، میں نہیں جاؤں گی، پھر مزید جھگڑا بڑھا، میں نے اپنی بیوی کو دھکا دے کر کہا: جا اب میں نہیں رکھتا، چلی جا۔ پھر میری والدہ اسے روکنے لگیں تو میں نے غصے میں کہا: میں تجھے طلاق دیتا ہوں ، وہ پھر بھی نہیں گئی تو میں نے والدہ سے کہا: اسے کیوں روک رکھا ہے ، اب تو سب ختم ہوگیا ہے، اب تو یہ میری طرف سے آزاد ہی ہوگئی ہے۔ چند سال پہلے بھی ہمارا جھگڑا ہوا تھا، اس وقت شاید آزاد کرتا ہوں یا فارغ کرتا ہوں کے الفاظ کہے تھے اور ایک عالمِ دین کے کہنے پر تجدیدِ نکاح کیا تھا، معلوم یہ کرنا ہے کہ اب شرعی حکم کیا ہے ؟(ایک سائل ، کراچی)
جواب: صورتِ مسئولہ میں’’جا اب میں نہیں رکھتا ،چلی جا‘‘الفاظِ کنایات میں سے ہیں اور ان الفاظ سے طلاق واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہے یا حالت بتاتی ہو کہ اس سے طلاق مراد ہے ،اَئِمہ ومشایخِ عظام نے تصریح فرمائی ہے کہ غصہ ارادۂ طلاق کی علامت ہے،علامہ علاؤالدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ’’غصے کی حالت ( حالتِ غضب )اور مذاکرۂ طلاق ظاہری طورپر طلاق کے ارادے پر دلیل ہوتے ہیں ،لہٰذا طلاق کے کلمات بولنے کے بعد اگر شوہر کلام کے ظاہری معنی کے خلاف مراد بیان کرے ،تو اُس کی تصدیق نہیں کی جائے گی ، (بدائع الصنائع ،جلد3،)‘‘۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ دلالتِ حال پائی جاتی ہو ،تو تمام الفاظِ کنایات سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں:’’ دلالتِ حال ،دلالتِ مقال سے عام (اور واضح) ہے، (حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد9،ص:309)‘‘۔
آپ نے اپنی بیوی کے فیصلہ دینے کے مطالبے پر کہا:’’ جا اب میں نہیں رکھتا، چلی جا ‘‘ تو یہاں بیوی کے مطالبے پر کہے ان الفاظ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ،صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی ؒ لکھتے ہیں: ’’کنایہ سے طلاق واقع ہونے میں یہ شرط ہے کہ نیت طلاق ہو یا حالت بتاتی ہو کہ طلاق مراد ہے یعنی پیشترطلاق کا ذکر تھا یا غصہ میں کہا۔ کنایہ کے الفاظ تین طرح کے ہیں: بعض میں سَوال رَد کرنے کا احتمال ہے، بعض میں گالی کا احتمال ہے اور بعض میں نہ یہ ہے نہ وہ(یعنی نہ گالی کا احتمال ہے ،نہ سوال رد کرنے کا احتمال)، بلکہ جواب کے لیے متعین ہیں۔
اگر رَد کا احتمال ہے ،تو مطلقاً ہر حال میں نیت کی حاجت ہے ،بغیر نیتِ طلاق نہیں اور جن میں گالی کا احتمال ہے اُن سے طلاق ہونا خوشی اور غضب میں نیت پر موقوف ہے اور طلاق کا ذکر تھا تو نیت کی ضرورت نہیں اور تیسری صورت یعنی جو فقط جواب ہو تو خوشی میں نیت ضروری ہے اور غضب و مذاکرہ کے وقت بغیر نیت بھی طلاق واقع ہے،(بہارِ شریعت ، جلد 2،ص:129)‘‘۔
اُس کے بعد دوسری طلاق صریح الفاظ میں دی ، جو بائن کو لاحق ہوگئی، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے ’’ صریح طلاق، صریح کو لاحق ہوتی ہے، اور صریح ، بائن کوبھی لاحق ہوتی ہے، بشرطیکہ طلاقِ بائن کی عدت میں دی ہو اور بائن(بھی) صریح کو لاحق ہوجاتی ہے ، (ردالمحتار علیٰ الدر المختار، جلد4،ص:405) آپ نے سوال میں درج کیاہے کہ پہلے بھی ایک طلاق(بائن) دے چکے ہیں، جس کے بعد تجدیدِ نکاح کیاگیا تھا، مجموعی طور پر آپ نے تین طلاقیں دی ہیں ، جس کے بعد حُرمتِ مُغلظہ کے ساتھ دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوگئے ، رجوع کی قطعاً کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔