• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میری والدہ نے ساری عمر روزے نہیں رکھے اور نماز بھی دو وقت کی پڑھتی تھیں، سستی اور بیماری کی وجہ سے۔ والدہ کا سن پیدائش 1954 ہے تو اس حساب سے والدہ کے روزوں کا کتنا فطرہ دینا پڑے گا؟ اگر ہماری اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر کیا طریقہ ہوگا روزوں کے کفارے کا؟والدہ کا انتقال گزشتہ سال ستمبر میں ہوچکا ہے۔

جواب: اگر آپ کی والدہ نے نماز اور روزوں کے متعلق فدیہ دینے کی وصیت کی ہو اور ترکہ چھوڑا ہے توکل ترکے کے ایک تہائی حصے سے نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا ورثاء پر لازم ہے، اگر ترکہ ہی نہیں چھوڑا تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ 

ورثاء اپنی طرف سے ادا کردیں تو بہتر ہے، مال کے تہائی حصے میں سے بلوغت کے بعد سے موت تک کی چھوڑی گئی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دیا جائے گا، اگر بلوغت کا زمانہ یاد نہیں ہے تو پندرہ سال کے بعد نمازوں اور روزوں کی فرضیت کا حکم لگا یا جائے گا۔