اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے ’’نیب آرڈیننس میں ترامیم کے ایکٹ مجریہ 2022‘‘کیخلاف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو دلائل دینے جبکہ درخواست گزار،کے وکیل خواجہ حارث کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے.
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مقدمہ کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کیلئے مختص کر دیا گیا ہے.
صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی ہے کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے، داغدار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرم آزاد نہ گھومیں، نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد سے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے، بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے پارلیمنٹ سے باہر آنے کے فیصلے پر سوال اٹھا تے ہوئے کہا کہ ایک پارلیمنٹرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ ہی کو چھوڑ کر چلا گیا
عدالت زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطیاں نکال رہی ہے، لیکن نہیں مل رہی ہیں، کچھ چیزوں کو تقدیر پر بھی چھوڑیں، الیکشن سر پر ہیں، آئندہ پارلیمنٹ آئیگی تو نیب ترامیم پر دوبارہ غور کر لے گی؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے نیب ترمیمی ایکٹ 2022پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا نیب کا ملزم خود قانون بنائے گا؟ملزم خود قانون بنا کر بتائے گا کہ اس کیخلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ کی جائے؟
کیا ترامیم کے ذریعے نیب پر قبضہ نہیں کر لیا گیا ہے؟فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا ہم ذاتی فائدے کیلئے بنایا گیا قانون کالعدم کرسکتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ اگر اپنے فائدے کیلئے قانون بنا بھی لے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟ایک منٹ کیلئے مان لیتے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ نے خود کو یا اپنے اہلخانہ کو بچانے کیلئے بھی یہ ترامیم کر دی ہیں تو اسکا حل بھی موجود ہے کہ عوام اگلی دفعہ انہیں ووٹ نہ دیں، نئی پارلیمنٹ قانون تبدیل کردیگی۔
اگر پارلیمنٹرینز نے اپنے فائدے کیلئے قانون بنایا ہے تو آئندہ عوام ان کو منتخب نہیں کریگی، جمہوریت آئین کی بنیاد ہے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا۔فاضل جج ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا کہ نیب قانون سے کون سے آئینی حقوق متاثر ہوئے ہیں تو چیف جسٹس نے کہا جسٹس منصور علی شاہ بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، کرپشن معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے، لوگ اپنے نمائندے کسی مقصدکیلئے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے۔
انہوںنے کہا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر تو ہم ایک چٹھی پر بھی نوٹس لے سکتے ہیں،جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ چٹھی کس نے بھیجی ہے؟
انہوںنے ایک بار پھر چیئر مین پی ٹی آئی، عمران خان کے پارلیمنٹ سے باہر آنے کے فیصلے پر سوال اٹھا تے ہوئے کہا کہ ایک پارلیمنٹرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ ہی کو چھوڑ کر چلا گیا۔