ارم فاطمہ
ہر سال جشن آزادی اور یوم دفاع کے مواقع پر دادی جان ہم سب بچوں کو پاکستان کے لیے دی گئی لازوال قربانیوں کی کہانی سناتی ہیں۔ اسد اور حمنہ ان کی کہانیاں سن کر اپنے دل میں اپنے ملک کے لیے ایک نیا ولولہ اور جوش محسوس کرتے، ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم ان کے دل میں پیدا ہوتا۔ ان کے اسکول میں ہر سال یوم دفاع بھی اسی شان کے ساتھ منایا جاتا تھا،ؒ جس طرح یوم آزادی۔ اس بار بھی اسد نے ایک تقریر اور حمنہ نے ایک نظم پڑھنی تھی۔
اسد نے فیصلہ کیا کہ وہ پاک آرمی جوائن کرے گا ۔ یوم دفاع سے چند دن قبل اسد اپنے ابو کے ساتھ اپنے اور حمنہ کے لیے اسکول فنکشن میں پہننے کے لیے فوجی یونیفارم خریدنے بازار گیا۔ بازار میں خوب گھما گھمی تھی۔ فوجی یونیفارم خریدنے کے بعد اس کے ابو دکاندار کو پیسے دے رہے تھے کہ اچانک اسدنے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بہت بڑی دکان کے سامنے کھڑا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا شاپر تھا جو اس نے دکان میں رکھ دیا، کسی کا اس طرف دھیان نہیں گیا۔
اسد پریشان ہوگیا، جیسے ہی وہ آدمی ان کے آگے سے گزرا، اس نے شور مچا دیا، اسے پکڑو یہ بازار میں بم رکھ کر جا رہا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ آدمی تیزی سے بھاگ گیا۔ کسی نے اس کی بات سنی کسی نے نہیں سنی۔ بھگڈر مچ گئی، سب لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔
اسد نے اپنے ابو کو بتایا کہ اس دکان میں شاپر ہے، اس کے ابو اس کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگے،، مگر وہ ہاتھ چھڑا کر اس دکان کی طرف بھاگا، وہ چاہتا تھا کہ اس شاپر کو اٹھا کر لوگوں سے دُور لے جائے، شاپر کو اُٹھا کر وہ بھاگتا ہوا ایک خالی میدان میں گیا ہی تھا کہ شاپر میں موجود بم پھٹ گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اُس کے والد سکتے میں اپنے معصوم بیٹے کی خون آلود لاش دیکھ رہے تھے جس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا تھام کر سینے سے لگا رکھا تھا۔
6 ستمبر کو یوم دفاع کی پروقار تقریب میں اس ننھے مجاہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا، اسے تمغہ جرات سے نوازا گیا۔ اس ننھے مجاہد کی ہمت اور قربانی نے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان مجاہدوں کی سرزمین ہے اس کا بچہ بچہ قربانی کے جذبے سے سرشار ہے۔