حاجی محمد حنیف طیب
’’نکاح‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنیٰ ملانا اور جوڑنا ہے ،جیسے دو چیزوں کو جوڑ کر ملا دیا جائے، اسی سے اس کا اصطلاحی مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ ایک مرد اور عورت جو باہم زوجین بن کر زندگی گزارنے کے لئے تیار ہیں، انہیں اس طرح جوڑدیاجائے کہ وہ ایک مضبوط بندھن میں بندھ جائیں، ﷲ تعالیٰ نے یہ ایک ایسا تعلق بنایا ہے کہ دوعلیحدہ علیحدہ رہنے والے اور بعض اوقات ایک دوسرے سے بالکل ناواقف مردوعورت جنہوں نے شاید ایک دوسرے کوکبھی دیکھا بھی نہیں ہوتا، وہ نکا ح کے بعد پوری زندگی کے لیے ایک دوسرے کے شریک حیات بن جاتے ہیں، شریعت انہیں ایک دوسرے کا وارث بنا دیتی ہے، اور پھر اولا د کا تو ایسا تعلق ہے جو بابا آدم علیہ السلام اور اما ں حوا علیہاالسلام سے آج تک قائم ہے اور آخرت کے دن بھی خدائی عدالت اسی نسبت سے ہی انسان کوپکارے گی۔ نکاح کرنے والے کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ نکاح کرتے وقت سنت پر عمل اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کی نیت کرے۔
حضرت عبد ﷲ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے ارشاد فرمایا، اے نوجوانو !تم میں جو نکاح کی قدرت رکھے، وہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح نگاہ کو پست رکھتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتاہے، اور جو نکاح کی استطاعت نہ رکھے، وہ روزہ رکھا کرے ،کیونکہ روزہ اس کی شہوت کو توڑدے گا۔ایک اور جگہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہواور سادگی ہو۔(مشکوٰۃ )
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ پر زرد رنگ کا اثر دیکھا تو فرمایا’’ماھٰذا‘‘یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نکاح کیا ہے ، تو آپ ﷺنے فرمایا! ﷲ تمہیں برکت دے، اب ولیمہ کرو، اگرچہ ایک بکری ہی(کی دعوت) کے ذریعے کیوں نہ ہو۔(صحیح بخاری )
اس سے معلوم ہوا کہ نکاح اور ولیمے کی تقاریب حضرات صحابۂ کرامؓ کے یہاں نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی جاتی تھی ۔دعوت کا نہ دینا یاشرکت نہ کرنا یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ اس پر ناراضی کا اظہا رکیا جائے یا رشتے ناطے کی دہائی دے کر ہنگامے کئے جائیں۔ آج کے دور میں جتنا اہتمام نکا ح کے موقع پر سنتوں کے قائم کرنے کا نہیں کیا جاتا، اس سے کہیں زیادہ فکر بڑی بڑی دنیا دار شخصیتوں کو مدعو کرنے کے حوالے سے کیا جاتا ہے ،حالانکہ برکت اعمال کےساتھ ہے،اگر ہوسکے تو غریبوں اور مسکینو ں کوبھی ولیمہ کی دعوت میں مدعو کیا جائے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲﷺنے فرمایا بدترین کھانا وہ ولیمہ کا کھانا ہوتا ہے جس میں مالداروں کوبلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیاجائے۔(صحیح بخاری )
موجودہ زمانے کی شادیوں میں بے شما ر بے جارسومات اور گناہ شامل ہو چکے ہیں، یہ گناہ نہ صرف اخروی تباہی وبربادی کا سبب ہیں، بلکہ ان فضولیات کی وجہ سے دنیاوی زندگی بھی اجیرن ہوگئی ہے، ان بے جا رسومات اور فضول کاموں کے لیے آدمی کوزندگی بھر کی پونجی کواس کے پیچھے لگادینا پڑتا ہے، بلکہ قرض وغیرہ لے کر اپنے آپ کو اور زیادہ مشکلو ں میں ڈالنا پڑتا ہے ۔بے جا اخراجات میں پیسہ اُڑانے سے بہتر ہے کہ وہی پیسہ بچاکر اپنی بیٹی کودے دو، داماد کو دے دو، مسجد میں دری بچھوادو،کسی طالب علم کاخرچہ برداشت کرلو، کسی مریض کا علاج کرالو،وغیرہ وغیرہ ۔
جب سے ہمارا معاشرہ شادی بیاہ کے موقع پرخرافات اور تکلفات میں مبتلا ہوا ہے، اس وقت سے مقروض ہونے ،سودی قرضے اور رشوت جیسی برائیوں میں مبتلا ہوگیا اور ان برائیوں کی جڑ یہی فضول خرچی اور اسراف ہے ،حالانکہ شریعت نے اسراف وفضول خرچی کو ناپسند فرمایا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اسراف مت کرو‘‘بےشک، ﷲ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃالاعراف )
شادیوں میں ایک خرابی اور گناہ یہ بھی ہے کہ اس میں حقو ق العباد کی رعایت نہیں ہوپاتی۔ ناچ گانا اور آتش بازی کی اس قدر گھن گرج اور آواز ہوتی ہے کہ دوسروں کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے، رات کے اوقات میں نیند حرام ہوجاتی ہے، بوڑھے، بیمار ،بچے اور مجبوروں کا چین وسکون غار ت ہوجاتا ہے۔
آتش بازی میں نہ صرف مال بلکہ بعض اوقات اس آتش بازی کی وجہ سے گھر یا دکان وغیرہ کوآگ لگ جاتی ہے جس سے جانی ومالی دونوں نقصان ہوتے ہیں، اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر فائرنگ کا ایک نیا سلسلہ چل نکلاہے ،آئے دن سننے کو ملتا ہے کہ شادی کے موقع پر فائرنگ ہونے سے باراتیوں میں سے کسی کوگولی لگ گئی، وہ ہلاک ،یازخمی ہوگیا، جس کے نتیجے میں اچھی خاصی خوشی ،غم و افسوس میں بدل جاتی ہے۔
خداراشادی بیاہ میں آتش بازی اور فضول رسوم و رواج سے اپنا دامن بچائیں۔ جب نکاح کی برکت کم خرچ اور سادگی میں ہے تو امت برکت کیوں نہیں لیتی، کیوں فضول خرچ کرکے نام ونمود سے برکت سے محروم ہوتی جارہی ہے۔