• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستمبر 2013 میں کراچی ایک جنگ زدہ شہر کا منظر پیش کر رہا تھا۔بوری میں بند لاشیں ملنا،قتل و غارتگری عام تھی۔ بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ،اغواہ برائے تاوان ،بھتہ خوری کے واقعات معمول بن گئے تھے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اکثر تصادم میں بدل جاتی اور پھر شہر میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جاتی۔ ان لڑائیوں میں مرنے والے اکثر افراد کا تعلق کسی سیاسی و مذہبی جماعت سے نہ ہوتا اور اکثر ان لڑائیوں کا خمیازہ عام شہری کو بھگتنا پڑتا۔

شہر میں کئی علاقے ایسے تھے جو عملاً "نو گو ایریا" بن چکے تھے اور کسی مخالف سیاسی جماعت یا حریف کا کوئی شخص ان نوگو ایریاز میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ شہر کے مضافاتی علاقے ٹی ٹی پی کے زیر اثر تھے اور وہاں کئی علاقے پولیس کے لیے بھی نو گو ایریا بن چکے تھے۔

ان علاقوں میں پولیس سر شام ہی تھانوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔غیر قانونی "جرگے"منعقد ہوتے، جہاں ٹی ٹی پی کے کمانڈرز ان جرگوں میں جو فیصلے کرتے وہ ماننے پر شہری مجبور ہوتے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہو رہے تھے، مسلک کی بنیاد پر روزانہ قتل کی وارداتیں ہو رہی تھیں اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے بڑھایا جا رہا تھا۔ لیاری ، اولڈ سٹی ایریا اور ملیر کے کچھ علاقے لیاری گینگ وار کے زیر اثر تھے، جہاں گینگ وار کے گروپس ایک دوسرے کے علاقے میں قبضے کے لیے دستی بموں اور کریکرز کے علاوہ بڑے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ،جبکہ ان گینگسٹرز کی جانب سے بھتہ خوری کا سلسلہ بھی عام تھا۔

نہ صرف لیاری گینگسٹرز بلکہ سیاسی جماعتوں اور ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی شہریوں، فیکٹریوں اور دکانوں سے بھتہ طلب کیا جاتا تھا اور نہ دینے کی صورت میں شہریوں کو قتل کرنا ایک عام سے بات تھی۔اغوابرائے تاوان کی وارداتیں بھی روز مرہ کا معمول بن گئی تھیں۔شارٹ ٹرم کڈنیپنگ (قلیل مدتی اغواہ )کے واقعات تواتر سے ہونے لگے تھے۔ دوسری جانب پولیس سیاسی مصلحتوں کا شکار تھی جبکہ پولیس میں ہونے والے سیاسی بھرتیوں کے علاوہ گینگ وار گروپس اور ٹی ٹی پی کے مخبر بھی موجود تھے جو پولیس کے ہر اقدام سے قبل ہی انھیں آگاہ کر دیتے تھے۔

غرض یہ کہ کراچی کی رونقیں مانند پڑ چکی تھیں،شہری سر شام ہی گھروں میں محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ایسے میں وفاقی حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مل کر کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔کراچی میں کئی پولیس افسران موجود تھے لیکن کراچی آپریشن کی قیادت کے لیے ایک نڈر افسر کی ضرورت تھی اس لیے شاہد حیات کو کراچی پولیس کی قیادت سونپی گئی۔ کراچی پولیس کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا، پولیس کے اندر سیاسی بھرتیوں ،سفارش پر تعیناتیوں نے پولیس کا مورال اور حوصلہ گرادیا تھا، تاہم شاہد حیات نے پولیس کا مورال بلند کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔

اچھے اور اہل افسران کی تعیناتی کی گئی۔ پولیس نے رینجرز اور انٹیلیجنس ایجنسییز کی مدد سے آپریشن میں کئی کامیابیاں حاصل کی گئیں اور ان اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں شہر کا امن بحال ہوا۔ پولیس ،رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آپریشن کے دوران قربانیاں دیں اور پولیس اور رینجرز کے متعدد افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔کراچی آپریشن میں کلعدم تنظیموں ٹی ٹی پی ،لشکر جھنگوی ،القاعدہ بر صغیر، انصاالشریعہ اور داعش کے علاوہ لیاری گینگ وار،فرقہ وارانہ تنظیموں اور کلعدم قوم پرست تنظیموں بی ایل اے،بی ایل ایف ایس آر اے کے کئی کمانڈر ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جبکہ کئی کو گرفتار بھی کیا گیا۔گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ 5 ستمبر 2013 کو کراچی آپریشن شروع کیا گیا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق ان دس برسوں کے دوران پولیس نے 8043 مقابلوں میں 2186 ملزمان کو ہلاک کیا جن میں 434 دہشت گرد،40 اغواہ کار،12 بھتہ خور اور 1700 ڈکیٹ شامل ہیں۔کراچی آپریشن کے دوران پولیس نے سنگین جرائم میں ملوث 3 لاکھ 91 ہزار 348 ملزمان کو گرفتار کیا جن میں 2379 دہشت گرد، قتل میں ملوث 4303 ملزمان،اغواہ برایے تاوان میں ملوث 237 ملزمان،بھتہ خوری میں ملوث 1039،ڈکیتی اور رابری میں ملوث 13085،اسلحہ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر 54268،منشیات فروشی میں ملوث 69603،دیگر جرائم میں ملوث 201475 ملزمان شامل ہیں جبکہ اس دوران 40844 مفرور اور 4225 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

آپریشن کے دوران ملزمان سے 67479 مختلف اقسام کے ہتھیار برآمد کئیے گئے جن میں 73 ایل ایم جی،1007 ایس ایم جی،64222 پستول/ریوالور/مائوزر،1093 رائفلز اور 1084 شارٹ گنز/رپیٹر شامل ہیں۔آپریشن کے دوران 626 کلو گرام دھماکہ خیز مواد،9 امپرووائزڈ ایکسپلیو ڈیوائسز ( آئی اے ڈیز)، 23 خود کش جیکٹس اور 4459 بم /دستی بم برآمد کئیے گئے۔

کراچی آپریشن کے دوران جہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی کامیابیاں حاصل کیں ،وہیں اس دوران بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوئے۔ سال 2014 میں کراچی ائیر پورٹ ،2018 میں چینی قونصل خانے، 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج ،2022 میں کراچی یونیورسٹی، 2023 میں کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں نے حملے کیے۔ مئی 2015 میں صفورا کے قریب آغا خانی جماعت کی بس کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جس میں 45 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،جامعہ کراچی کے دو اساتذہ ڈاکٹر وحید الرحمان المعروف یاسر رضوی اور پروفیسر شکیل اوج سمیت متعدد اساتذہ کرام اور علمائے کرام کو بھی شہید کیا گیا۔معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔

معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال امجد صابری کو بھی قتل کیا گیا۔ایس پی سی آئی ڈی اسلم خان المعروف چوہدری اسلم کو بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔مارچ 2015 میں رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ مارا اور وہاں سے جیو ٹی وی کے شہید رپورٹر ولی خان بابر کے قتل میں ملوث ملزمان سمیت کئی ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔

پولیس کی جانب سے کئیے گئے مقابلوں میں جہاں متعدد ملزمان کو ہلاک اور زخمی کیا گیا وہیں کئی مقابلوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے سوالات بھی کھڑے کئیے اور کئی مقابلوں کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔کراچی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق سال 2013 میں شہر میں 2789 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوئے،سال 2014 میں 1823،سال 2015 میں

995،سال 2016 میں 667،سال 2017 میں 583،سال 2018 میں 461،سال 2019 میں 491،سال 2020 میں 508،سال 2021 میں 450،سال 2022 میں 531 اور سال 2023 میں اب تک 376 افراد مختلف واقعات میں قتل کئیے گئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2013 میں ٹارگٹ کلنگ میں 509 افراد قتل کئیے گئے،2014 میں 189،سال 2015 میں 159 ،2016 میں 45 ،سال 2017 میں 23 ،سال 2018 میں 18،سال 2019 میں 12،سال 2020 میں 8،سال 2021 میں 2 ،سال 2022 میں 4 اور سال 2023 میں اب تک ایک شخص کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔

ریکارڈ کے مطابق سال 2013 میں دہشت گردی کے 51، 2014 میں 34، 2015 میں 7 ، 2016 میں 2 ، 2017 میں صفر، 2018 میں 4 ، 2019 میں ایک، 2020 میں 15 ، 2021 میں 4 ، 2022 میں 3 اور سال 2023 میں اب تک دہشت گردی کے 2 واقعات رپورٹ ہوئے۔اسی طرح سال 2013 میں اغواہ برائے تاوان کے 78، 2014 میں 110 ، 2015 میں 35، 2016 میں 21، 2017 میں 17 ، 2018 میں 10، 2019 میں 42 ، 2020 میں 38 ، 2021 میں 35 ، 2022 میں 34 اور سال 2023 میں اغواہ برائے تاوان کے 40 کیسز رپورٹ ہوئے۔ بھتہ خوری کے واقعات سال 2013 میں 533، 2014 میں 423، 2015 میں 233 ، 2016 میں 160 ، 2017 میں 118 ، 2018 میں 109، 2019 میں 128، 2020 میں 154، 2021 میں 113، 2022 میں 110 اور سال 2023 میں اب تک بھتہ خوری کے 92 واقعات رپورٹ ہوئے۔

کراچی آپریشن میں پولیس کے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ( سی ٹی ڈی )نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں اور دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث بیشتر ملزمان کو ہلاک یا گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ گو کہ کراچی پولیس اور رینجرز کی جانب سے "کراچی آپریشن"کی اصطلاح کا استعمال اب نہیں کیا جا رہا، تاہم پولیس افسران کا کہنا ہے کہ یہ کراچی آپریشن کا تسلسل ہی ہے۔کراچی آپریشن کا کریڈٹ جہاں مسلم لیگ (ن ) کی وفاقی حکومت کو دیا جاتا ہے، وہیں سی پیک اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے "کراچی بے امنی کیس" کے دوران دئیے گئے ریمارکس اور فیصلوں کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔

دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا گیا، جس کے بعد ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی آپریشن میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی۔ کراچی میں اب پولیس کو جہاں بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند کلعدم قوم پرست تنظیموں کی دہشت گرد کارروائیوں کا سامنا ہے، وہیں شہر میں اسٹریٹ کرائم، منشیات فروشی اور موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی لفٹنگ جیسے چینلجز کا سامنا ہے۔

گذشتہ برس (سال 2022 ) شہر میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں 120 سے زائد شہری قتل کئیے گئے جبکہ 2022 میں شہر میں اسٹریٹ کرائم کی 82 ہزار 713 وارداتیں ہوئیں۔رواں برس بھی اب تک ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 90 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم سے نمٹنے کے لئیے پولیس کو کراچی آپریشن کی طرز پر منظم حکمت عملی بنانا ہو گی تاکہ شہریوں کو ان کی قیمتی جان و مال کے نقصان سے بچایا جاسکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید