• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا، یورپ، مشرق وسطیٰ اور بھارت کا تجارتی راہداری منصوبہ، انڈیا سے امارات تا اسرائیلی ٹریڈ ہوگی

نئی دہلی ( اے ایف پی، جنگ نیوز) بھارت میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے موقع پر الگ سے ایک پیشرفت میں بھارت سے مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ تک تاریخی تجارتی راہداری منصوبے کی نقاب کشائی کی گئی ہے جس میں امریکا بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق چینی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ (جسے جدید شاہراہ ریشم بھی کہاجاتا ہے) کے نعم البدل کے طور پر تیار کیے جانے والے اس راہداری منصوبے کو جدید مصالحہ راہداری کہاجاسکتا ہے ۔منصوبے کے تحت دبئی سے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک ریلوے لائن بچھے گی، کنٹینروں کو نہرسوئز سے نہیں گزرنا پڑے گا اور یورپ سے بھارت تک تجارت کی رفتار40 فیصد تیز ہوجائےگی۔ امریکا، سعودی عرب، یورپی یونین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشترکہ طور پر لانچ کیے جانے والے اس اقدام میں ریلوے، بندرگاہوں، بجلی ، ڈیٹا نیٹ ورک اور ہائیڈروجن پائپ لائن کے رابطے قائم کیے جائیں گے۔ اگرچہ یہ منصوبہ بنیادی طور پر تجارت پرمرکوز ہے لیکن اس کے بہت وسیع مضمرات ہوں گے جن میں ماضی کے دشمنوں اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات نارمل کرنا بھی شامل ہے۔ ایونٹ کی لانچ کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ ’’ یہ واقعی ایک حقیقی بڑی اور تاریخی ڈیل ہے‘‘۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلہ وان دیرلین نے کہا کہ بھارت، مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ کی یہ اقتصادی راہداری صرف ایک ریلوےیا ایک کیبل تک محدود نہیں ہے ۔ یہ ایک براعظموں اور تہذیبوں کے مابین ایک سبز اور ڈیجیٹل پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا ہی ایک مجوزہ منصوبہ مشرق وسطیٰ بشمول متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، اردن اور اسرائیل کو ریل سے جوڑنا ہے اور اس سے بھارت اور یورپ کے مابین تجارت کی رفتار 40 فیصد بڑھ جائے گی۔ یوریشیا گروپ کے سربراہ پرامیت پال چوہدری نے ککہا ہے کہ آج جو کنیٹینر نہر سوئز کے راستے یورپ سے ممبئی پہنچتا ہے وہ اب یورپ سے براہ راست اسرائیلی بندرگاہ حیفہ سے ریل کے ذریعے دبئی پہنچے گا جس سے وقت اور رقم دونوں بچیں گے۔ اے ایف پی کو جو تفصیلات ملی ہیں ان کے مطابق ’ سبز ہائیڈروجن‘ کی تیاری اور ٹرانسپورٹ کےلیے انفراسٹرکچر بھی اسی اقتصادی راہداری کے ذریعے بنایاجائےگا۔ یہ ٹیلی کمیونی کیشن اور ڈیٹا ٹرانسفر کو بھی زیرسمندر کیبل کے ذریعے مضبوط بنائے گا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا کہنا تھا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پلان کو حقیقت کی شکل دی جائے۔ ان پروجیکٹس سے مشرق وسطیٰ کی معدنی تیل میں ڈوبی ہوئی معیشتوں کو اپنی معیشتوں کا انحصار معدنی تیل پر کم کرنے کا موقع ملے گا۔ ولسن سینٹر میں سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم ردعمل بن سکتا ہے۔ چین کے بی آر آئی منصوبے سے یورپ، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں چینی اثرورسوخ، سرمایہ کاری اور معیشت کو فروغ ملا تھا۔ کوگلمین کے مطابق اگر یہ منصوبہ جس کا مقصد بھارت اور مشرق وسطیٰ کے مابین ارتباط کو طاقتور کرنا اور بی آر آئی کے منصوبے کور وکنا ہےوہ اگرکامیاب ہوجاتا ہے تو یہ گیم چینجر ہوگا۔ س منصوبے پردستخط کرنے والوں کو امیدہے کہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ افراد کی منڈی کو مغرب سے منسلک کرکے اسے چینی انفراسٹرکچر پر خطیر اخراجت کے پروگرام کے نعم البدل کے طور پر لایاجاسکے گا۔ اس کے علاوہ اس سے مشرق وسطیٰ کی معیشتوں کو فروغ ملے گا جبکہ اسرائیل اور خلیج کی عرب ریاستوں کے مابین تعلقات بھی نارمل ہوسکیں گے۔ 

اہم خبریں سے مزید