• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی وزیراعظم نے بھارتی ہم منصب سے جگتار سنگھ کا مسئلہ بھی اٹھادیا

گلاسگو (طاہر انعام شیخ) برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے بھارتی وزیراعظم نریندرر مودی کے ساتھ دہلی میں ملاقات کے دوران سکاٹش شہری جگتار سنگھ کا مسئلہ بھی اٹھایا جن کو بھارتی حکام نے 2017سے قید کر رکھا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے 70سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ نے رشی سوناک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جگتار سنگھ جویل کی رہائی کے لئے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ رشی سوناک نے اگرچہ اس بارے میں مزید تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن کہا کہ برطانوی دفتر خارجہ جگتار سنگھ جویل سے خاندان کو پہلے بھی مدد فراہم کرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی کرتا رہے گا۔ وزیراعظم پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک برطانوی شہری کو بھارتی جیل میں سڑنے کے لئے چھوڑ دیا ہے، سکاٹش فسٹ منسٹر حمزہ یوسف نے بھی سکاٹش شہری کی بھارتی حراست سے رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈمبارٹن سکاٹ لینڈ کے 36سالہ جگتار سنگھ جوکہ سکھوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے مہم چلاتے رہے ہیں، وہ اکتوبر 2017میں اپنی شادی کے لئے بھارت گئے تھے وہ بازار میں اپنی بیگم کے ساتھ شاپنگ کر رہے تھے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پنجاب پولیس کے افسران ان کو گرفتار کرکے ایک بے نشان گاڑی میں ڈال کر لے گئے، ان پر جیل میں شدید تشدد کیا گیا، بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور ایک سادے کاغذ پر دستخط کروائے گئے۔ بھارتی حکومت نے تشدد کے الزامات کی تردید کی ہے۔ مسٹر جگتار سنگھ پر بھارتی پولیس نے الزامات عائد کئے ہیں کہ انہوں نے مشرقی پنجاب میں ہندو مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے قتل کی سازش میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی خریداری کے لئے فنڈز مہیا کرنے میں مدد دی۔ جگتار سنگھ اس وقت 8الزامات کا سامنا کررہے ہیں جن میں ان کو سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ جگتار سنگھ اپنے خلاف لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ کی ڈائریکٹر مایا فو نے کہا کہ دو سابق وزرائے اعظم تھریسا مرے اور بورس جانسن نے بھی بھارتی حکومت کے ساتھ جگتار سنگھ کی رہائی کا معاملہ اٹھایا تھا لیکن اپنی قید کے 6سال بعد وہ جیل میں ایسے جرائم میں سزا کا سامنا کررہے ہیں جو انہوں نے کئے ہی نہیں۔ مایا فو کا کہنا ہے کہ رشی سوناک نے کیس کے بارے میں نریندر مودی سے کیا کہا اور مودی نے کیا جواب دیا، اس سوالات کے جواب جانے بغیر وزیراعظم کی بات بے معنی ہے۔

یورپ سے سے مزید