سعدیہ عبید خان
سیلاب کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا اور پھر علاقے میں سیلابی پانی ٹھاٹھیں مارنےلگا۔ چار سالہ معصوم پوَن بخار کی شدّت سے پُھنک رہا تھا۔گھر میں موجود بخار اُتارنے کی دوا بھی ختم ہونے کو تھی۔ سبائی نے پوَن کے منہ میں ابھی بہ مشکل چند قطرے دوا کے ٹپکائے تھے کہ بستی میں پانی کے ریلے شور مچاتے داخل ہوگئے اور ہر طرف تباہی مچانے لگے۔ چار بچّوں اور شوہر کے ساتھ جان بچا کر نکلنے والی سبائی کے ہاتھوں میں سب سے چھوٹا بچّہ جُھول رہا تھا۔ بڑی سڑک کنارے بنے کیمپ میں سیلاب زدگان کے ٹھہرنے کا انتظام تھا، لیکن دوا دارو ندارد۔ بخار بڑھنے سے بچّے کو جھٹکے لگنے شروع ہو گئے اور پھر دوروں کا یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا، جس کا نتیجہ پھول جیسے معصوم بچّے کی ذہنی و جسمانی معذوری کی صُورت نکلا۔
کسی بھی ماں کے لیے اپنے صحت مند بچّے کو معذوری کا شکار ہوتے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے اور اُس ماں کے لیے تو یہ اور بھی سوہانِ رُوح ہے، جس نے سیلاب کے دَوران انتہائی نامساعد حالات میں یہ عرصہ( دس ماہ) اپنے معذور بچّے کے ساتھ ایک کیمپ میں گزارا ہو۔ جہاں کوئی دوا میسّر تھی اور نہ ہی کوئی طبیب دست یاب۔چاروں طرف صرف پانی ہی پانی تھا یا پھر بے بسی کا راج۔ اب چار سالہ پوَن اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت لیے سب کو تکتا رہتا ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں اُس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، تو اُس کی ماں اُسے اپنی بانہوں میں تھام لیتی ہے۔
اُسے بے ڈھب انداز سے زمین پر پیر رکھتے دیکھ کر سبائی نے بڑے تاسف سے بتایا’’ اچھا بَھلا چلتا، بولتا میرا بچّہ سیلاب کے دَوران بخار اور دَوروں سے دماغی کم زوری کا شکار ہوگیا ہے۔‘‘ کپاس چُننے اور مزدوری کی نوکری کرنے والے سبائی کے شوہر کی محدود آمدنی سات افراد کی گزر بسر کے لیے ناکافی ہے، ایسے میں بچّے کا علاج کیسے ہو۔ پون کی بیماری سے متعلق بتاتے ہوئے سبائی کا حوصلہ دل چیر دینے والا تھا۔’’ پورا علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا، سارے راستے بند ہوگئے تھے، اسپتال تک جانے کی کوئی حالت نہیں تھی۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے پوَن کو تیز تاپ چڑھا تھا۔
گھر میں بخار اُتارنے کی جتنی دوائیں تھیں، کسی کا اثر نہیں ہو رہا تھا۔ میرا یہ بچّہ ویسے بھی بہت کم زور تھا۔ اور پھر کیمپ میں اس کو جھٹکے پڑنے لگے۔ وہاں دو وقت کی روٹی مشکل سے مل رہی تھی، ڈاکٹر کہاں سے آتا اور بس اب یہ کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے۔‘‘ اِس ضمن میں جنرل فزیشن، ڈاکٹر اقبال اعظمی کا کہنا ہے کہ اگر جسم کا درجۂ حرارت104 یا105 تک یا اُس سے بھی آگے بڑھ جائے،تو یہ دماغ پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔
خصوصاً پانچ برس سے کم عُمر بچّوں میں تیز بخار کے باعث پڑنے والے دورے اور جھٹکے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔اس کیفیت میں آنکھوں کی پُتلیاں گھوم جاتی ہیں، منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے، ہاتھ پاؤں غیر ارادی طور پر حرکت کرنے لگتے ہیں۔ ایسی صُورت میں کسی دوا کی بجائے بخار اُتارنے کی تدبیر کی جانی چاہیے، جیسا کہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنا یا بچّے کو نہلا دینا۔ دراصل بچّے پر بخار کی مدّت سے زیادہ شدّت اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘
یوں تو2022 ء کے سیلاب نے بلوچستان اور سندھ کے بیش تر علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی، لیکن اُن علاقوں میں تو یہ تباہی افتاد بن کر ٹوٹی، جہاں پانی کو قدرتی راستوں سے گزارنے کی بجائے کم آبادی والے نشیبی علاقوں سے گزارا گیا اور اُن سے متصل بندوں میں شگاف ڈال دئیے گئے کہ نتیجتاً پانی راتوں رات آبادیوں میں داخل ہو کر بڑی تباہی کا باعث بنا۔ بدین سے85 کلو میٹر دُور، جرار بھیل گاؤں ایک اقلیتی کمیونٹی پر مشتمل گاؤں ہے۔ یہاں ہندو مذہب کے ماننے والے 120سے150 خاندان رہائش پذیر تھے اور اچانک سیلاب سے یہ تمام گھر منہدم ہوگئے۔
پانی اِس حد تک بڑھ گیا تھا کہ لوگ بہ مشکل اپنے بچّوں کو لے کر محفوظ مقامات تک منتقل ہوسکے، جب کہ وہ اپنے گھر، مال مویشی کچھ نہ بچا سکے۔زمینوں پر کپاس کی چُنائی یا محنت مزدوری کرنے والے مرد اپنی روزی روٹی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر کئی ماہ تک مختلف کیمپس میں بے سروسامانی کے عالم میں رہنے کے بعد جب یہ اپنے علاقے میں واپس پہنچے، تو اُنہیں دو ماہ زندگی شروع کرنے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا۔سب سے بڑا مسئلہ جیب کا خالی ہونا تھا۔
سُونی آنکھوں میں نااُمیدی لیے ہر شخص اب اپنے علاقے اور زرعی زمینوں سے سیلابی پانی اُترنے کا منتظر ہے، وہ سیلاب جسے گزرے دس ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چُکا ہے۔نیشنل ڈسزاسٹر مینجمنٹ حکّام کے مطابق، تین ملین ایکڑ فصلیں سیلاب کی زد میں آکر تباہ ہوئیں اور اندیشہ ہے کہ اب زرخیز زمینیں بھی پانی کھڑا رہنے سے بنجر ہو جائیں گی۔اُس علاقے میں کام کرنے والی ایک کمیونٹی ورکر، ثمینہ نے صحتِ عامّہ کی صُورتِ حال کو سخت پریشان کُن قرار دیا۔ اُن کے مطابق، جرار بھیل کمیونٹی کا گاؤں 2022ء کے سیلاب میں ایل بی او ڈی( سیم نالے)توڑے جانے کے باعث متاثر ہوا۔ آدھی رات کو لوگوں کو اطلاع دئیے گئے بغیر پُشتے توڑے گئے اور لوگوں کے لیے یہ صُورتِ حال بہت پریشان کُن تھی۔
مختصر سی آبادی والے اِس گاؤں کے تمام لوگوں نے سڑک کنارے قائم کردہ عارضی کیمپس میں بمشکل پناہ لی۔ مختلف سماجی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اُنہیں راشن فراہم کیا گیا، مگر غیر منصفانہ تقسیم کے باعث بیش تر لوگ اس سے بھی محروم رہے، جب کہ چھوٹے بچّوں اور حاملہ خواتین کی موجودگی کے باعث صُورتِ حال اُس وقت نازک ہوئی، جب صحتِ عامّہ کی کوئی سہولت فراہم نہ کی جاسکی۔ اس علاقے میں تاحال میڈیکل کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ دُور دُور تک کوئی ہیلتھ کیئر سینٹر یا اسپتال موجود نہیں، جہاں مریض منتقل کیے جاسکیں، حالاں کہ گاؤں میں امراضِ قلب سے لے کر تپِ دق اور بخار کے باعث دوروں سے دماغی کم زوری کا شکار ہونے والا بچّہ بھی موجود ہے، جب کہ جِلدی بیماریاں اور ملیریا کی وبا بھی عام ہے۔
سیلاب کے دَوران اس گاؤں میں حاملہ خواتین کی تعداد پندرہ کے قریب تھی، جن میں سے چار کی انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں سڑک کنارے زچگی ہوئی، جب کہ کوئی ڈاکٹر موجود تھا اور نہ ہی نرسنگ اسٹاف۔وہاں سے 15کلومیٹر دُور، پنگریو نامی شہر میں ایک باقاعدہ دیہی مرکزِ صحت موجود ہے،لیکن سیلاب کے باعث اُس کی حالت بھی کچھ کم بدتر نہیں۔اس مرکز کے باہر، داخلی راستے اور اندر تک سیلابی پانی موجود ہے۔مرکزِ صحت کے باہر ٹھہرے ہوئے پانی کی رنگت کائی کے باعث گہرے سبز رنگ میں تبدیل ہو چکی ہے، جو مچھروں کی آماج گاہ اور اُس سے اُٹھنے والا تعفّن ناقابلِ برداشت ہے۔
گو کہ یہاں فِری ڈیلیوری کی سہولت موجود ہے، مگر ڈاکٹر چوبیس گھنٹے موجود نہیں ہوتا۔18 سالہ امینہ بی بی بچپن سے دل کی بیماری کی شکار ہے، نقاہت بھری آنکھیں، مدقوق جسم اور نیلی پڑتی رنگت اس کی بیماری کی شدّت کی عکّاسی کر رہے تھے۔ بہ مشکل چند قدم چلنے پر تھکان کا شکار ہونے والی امینہ کی ماں نے بتایا’’ اسے بچپن سے دل میں سوراخ کا مسئلہ ہے، سیلاب کے دنوں میں جہاں کھانے پینے کی سہولتوں کا فقدان تھا، وہاں امینہ کی دوا کا انتظام کہاں سے ہوتا اور اب بھی جو سب کھاتے ہیں، یہ بھی وہی کھاتی ہے۔‘‘ ان کے علاقے میں تو کیا، پنگریو شہر میں بھی کوئی ماہرِ امراضِ قلب موجود نہیں اور شہر میں آکر علاج کروانا اُن کی استطاعت سے باہر ہے۔
موسمیاتی تبدیلی، توانائی کی منتقلی، آب پاشی اور منصفانہ مالیات کے حوالے کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم، پاکستان میں گرین ریکوری پر کام کرتی ہے۔اس کی پراجیکٹ منیجر، قراۃ العین رضوان کا کہنا ہے کہ’’ ہم پاکستان میں حکومتی سطح پر موجود ایک مقامی تنظیم، لاڑ کے شراکت دار ہیں، جو اِس وقت جرار بھیل اور ملحقہ دیہات میں بنیادی صحت اور دیگر سہولتوں کی فراہمی سے متعلق کام کر رہی ہے۔ دراصل اِس علاقے میں زندگی کسی حد تک بہتر بنانے میں غربت اور بیماری سخت آڑے آرہی ہے۔ یہاں ہر دوسرا فرد ناکافی غذائیت اور دیگر امراض کا شکار ہے۔
سیلابی پانی نے پینے کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں چھوڑا۔ہمارے جمع کردہ اعدداد وشمار کے مطابق، سیلابی پانی کے کھڑے رہنے سے زرعی زمین تقریباً ناقابلِ کاشت ہو چُکی ہے اور پہلے سے موجود مسائل کا انبار اب مزید غربت، سماجی و ثقافتی تفاوت، بنیادی سہولتوں تک عدم رسائی اور ماحولیاتی عوامل کے ساتھ مل کر سنگین صُورتِ حال اختیار کر چکا ہے۔ پہلے جو افراد کسی زمین دار کی زمینوں پر کام کیا کرتے تھے، سیلاب کے دنوں میں جانوں کے زیاں،کسمپرسی میں کی جانے والی ہجرت، کسی ساتھی کے بچھڑ جانے سے ذمّے داریوں میں اضافے اور اُس کے طویل مدّتی اثرات، عدم تحفّظ اور تعلیم، صحت کے وسائل تک عدم رسائی کے باعث انتہائی ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہیں۔‘‘
وہاں کام کرنے والی ایک اور سماجی تنظیم کے ذمّے دار اور کو آرڈی نیٹر، ساون خاصخیلی کا کہنا ہے کہ’’ ہمارا بنیادی کام کمیونٹی کی سطح پر قدرتی آفات سے بچائو کی تدابیر بتانا ہے۔ ہمارے ادارے کا اصل مقصد کپیسیٹی بلڈنگ اور مقامی سطح پر ایسے اقدامات کرنا ہے، جس سے لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ہمارے پروگرامز کا مقصد فراہمیٔ تحفّظ، ڈیزاسٹر رِسک منیجمنٹ اور لوگوں کو ماحول کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔‘‘جرار بھیل گائوں سے متعلق ساون کا کہنا ہے کہ ’’ اِس علاقے میں صحت کی کوئی سہولت موجود نہیں۔
سب سے قریبی مرکزِ صحت بھی چار کلومیٹر دُور ہے۔ملیریا، جِلدی اور پانی سے ہونے والی بیماریاں عام ہیں، جب کہ ٹی بی بھی یہاں اپنے قدم جما چُکی ہے،پھر پینے کے صاف پانی کی عدم دست یابی بھی بیماریوں کو دعوت دے رہی ہے۔پنگریو میں صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے، جو اس گاؤں سے 15کلو میٹر دُور ہے۔ فی الوقت، جرار بھیل گاؤں میں عارضی50بیت الخلاء کی تعمیر کے ساتھ فی کس 21000روپے نقد رقم کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے اور سیلاب کے بعد100 سے زائد ہیلتھ سیشن بھی کروائے گئے، جن میں5000 سے زاید ہیلتھ اینڈ ہائیجین کِٹس فراہم کی گئیں، جب کہ1000 سے زاید میکرو نیوٹرئینٹ پاؤڈر کے پیکٹس بھی فراہم کیے گئے۔‘‘
ماحولیاتی تبدیلیوں کا انسانی زندگیوں، خصوصاً مفلوک الحال افراد پر جس قدر گہرا اثر ہو رہا ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھا اور یہ اثرات جنوب ایشیائی خطّے پر سب سے زیادہ مرتّب ہو رہے ہیں۔ان اثرات سے ترقّی پذیر ممالک کی معیشت کم زور پڑ رہی ہے، بھوک میں اضافہ اور پائے دار ترقّی کے اہداف پہنچ سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔یاد رہے، ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اور اِس تباہی سے بھی سب سے زیادہ وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں، جنہوں نے اس ماحولیاتی خرابی میں کم سے کم حصّہ ڈالا اور وہ یہ غریب ترین کمیونیٹیز اور خواتین ہیں، جو اس موسمیاتی بحران کی سب سے بھاری قیمت ادا کر رہی ہیں۔
اسی سبب پاکستان میں دریائے سندھ کے طاس اور اس کی معاون ندیوں کے ساتھ رہنے والی ساحلی برادریوں کو ماحولیاتی آفات کے خطرے سے آگاہ کرنے اور ترقیاتی مسائل اجاگر کرنے کے ضمن میں کام کرنے والی مختلف سماجی تنظیموں کا اصل زور خواتین کے اہم مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی ہے۔
اس حوالے سے متعلقہ سرکاری محکموں، ارکانِ پارلیمان اور میڈیا نے مشترکہ طور پر ڈیزاسٹر رِسک مینجمنٹ میں صِنفی شمولیت سے متعلق 11نکاتی اعلامیے کا بھی اعلان کیا ہے۔درحقیقت سندھ میں اِس مرتبہ آنے والے سیلاب نے معاشی طور پر لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے ایسے مراکز کے قیام کی اشد ضرورت ہے، جہاں معاشی خود کفالت کے منصوبے شروع کیے جا سکیں، صحتِ عامّہ کی سہولتیں فراہم ہوں اور خصوصاً خواتین کو معاشی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔