لندن (پی اے) انگلینڈ میں اپنے گھر میں مردہ پائی جانے والی بچی سارہ شریف کے دادا نے بی بی سی کو بتایا کہ سارہ کے والد عرفان شریف کے ساتھ برطانیہ سے پاکستان آنے والے پانچ بچوں کو پولیس نے ان کے گھر سے لے جایا گیا ہے، جہاں وہ چھپے ہوئے تھے۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ پیر کو درجنوں پولیس اہلکاروں نے پراپرٹی پر چھاپہ مارا تھا۔ سارہ کے والد عرفان شریف اور ان کی اہلیہ بینش بتول 10 اگست کو ووکنگ میں اپنے گھر میں 10 سالہ بچی کے مردہ حالت میں پائے جانے کے بعد برطانیہ سے فرار ہو گئے تھے۔ پوسٹ مارٹم ایگزامینیشن میں پتہ چلا کہ سارہ کے جسم پر ملٹی پل اور شدید چوٹوں کے نشانات پائے گئے۔ سارہ کے دادا محمد شریف نے بتایا کہ انہوں نے بچوں کو پاکستان کے نارتھ ایسٹرن شہر جہلم میں اپنے گھر میں چھپا رکھا تھا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنے عرصے سے وہاں پر موجود تھے۔ پیر کو مقامی وقت کے مطابق 16:30 (11:30 جی ایم ٹی) سے کچھ قبل پڑوسیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اس پراپرٹی پر چھاپہ مارنے کیلئے پہنچ گئی ہے۔ عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ درجنوں اہلکار پراپرٹی کے باہر جمع تھے، ٹریفک روک دی گئی اور ہر ایک کو اپنے فون پر فلمبندی کرنے سے روک دیا گیا۔ مسٹر شریف نے کہا کہ اس کے بعد پولیس پانچوں بچوں کو اٹھا کر لے گئی۔ انہوں نے افسران پر سی سی ٹی وی کیمرے اور ان کے گھر کے گیٹ توڑنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے پہلے بھی اپنے بیٹے کے ساتھ رابطے میں ہونے یا یہ جاننے سے انکار کیا تھا کہ فیملی کہاں ہے۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ بچے ان کے پاس ہیں۔ سارہ کے والد، سوتیلی ماں اور چچا فیصل ملک ان کے ساتھ نہیں تھے۔ ایک پڑوسی نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے خواتین اہلکاروں کے ساتھ گھر پر چھاپہ مارا۔ وہ داخلی دروازے پر لگے سی سی ٹی وی کو توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ جب وہ اندر تھے تو مزید پولیس اہلکار باہر پہنچے اور انہوں نے ٹریفک روکی اور سب کو اپنے موبائل فونز پر فلم بندی کرنے سے بھی روک دیا۔ جمعہ کو محمد شریف نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے دو تین دن پہلے اپنے بیٹے عرفان شریف کو خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا پیغام بھیجا تھا۔ انہوں اور ان کی فیملی نے پولیس پر انہیں ہراساں کرنے، کچھ ارکان کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارنے کا الزام لگایا۔ محمد شریف نے مزید الزام لگایا کہ پولیس نے مزید دباؤ ڈالنے کیلئے ان کے خلاف جعلی مقدمات بنائے ہیں لیکن پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔