کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ“ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئےکہا ہے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے سپریم کورٹ کا وقار بری طرح متاثر ہوچکا ہے اس سپریم کورٹ پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوچکا ہے اس پر آئین کے تحفظ کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے کا الزام لگ چکا ہے، تمام تر معاملات کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر عائد ہوتی ہے.
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے بعد بننے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے کھڑے ہوگئے .
جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مکمل طور پر سائڈ لائن کردیئے گئے، نہ صرف انہیں اہم بنچز کا حصہ نہیں بنایا گیا بلکہ انکے بعد کے سینئر ترین جج جسٹس سردار طارق مسعود کیساتھ بھی یہی رویہ اپنایا گیا پاکستان کو اس برے حال تک پہنچانے میں جہاں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کا کردار ہے وہاں عدلیہ کا کردار بھی بہت زیادہ منفی ہے، گزشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو چار چیف جسٹسز نے اس سب میں اہم کردار اد اکیا ہے.
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور آئینی و قانونی فیصلوں کے بجائے ریمارکس، چھاپے اور دوروں تک محدود رہا، ہزاروں کیسوں کا بیک لاگ ختم کرنے کے بجائے ڈیم بنانے کا شوق ،تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ فنڈ ریزنگ کرنے کا شوق ، سیاسی معاملات میں مداخلت کر کے الیکشن اور سیاسی مینجمنٹ کرنا ان کا ایجنڈا رہا.
چیف جسٹس گلزار احمد کا دور آئینی و عدالتی بحرانوں سے نمٹنے کے بجائے کراچی کے مسائل کے سطحی حل اور نسلہ ٹاور گرانے تک محدود رہا،جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دور جو نسبتاً بنچز بنانے کا معاملہ میں بہتر تھا لیکن بطور جج اپنے پورے دور میں اس تنازع کی زد میں رہے کہ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو گاڈ فادر کہا اور پھر بغیر ٹرائل کے انہیں نااہل کردیا، ان پر بعد میں اسی سابق وزیراعظم سے اس کے جیل میں ہوتے ہوئے اس سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے مدد مانگنے کا الزام بھی لگا، اب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت ختم ہونے جارہی ہے، وہ اپنا عہدہ چھوڑ کر سپریم کورٹ سے رخصت ہورہے ہیں لیکن وہ جو میراث چھوڑ کر جارہے ہیں اسے سپریم کورٹ کے متنازع ترین کردار سے متعلق تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.
چیف جسٹس عمر عطا بندیال جس حالت میں سپریم کورٹ چھوڑ کر جارہے ہیں وہ جمہوری حکومتوں کے دوران تاریخ کی سب سے کمزور اور متنازع سپریم کورٹ ہے، ایک ایسی سپریم کورٹ جس کے چیف جسٹس کی ساس کی جب آڈیو لیک ہوئی تو وہ چیف جسٹس خود آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف کیس کی سماعت کرتے رہے، مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود چیف جسٹس نے کمیشن کی کارروائی کو معطل کیا اور اپنے اوپر اعتراض کا تحریری فیصلہ بھی خود ہی جاری کیا ایک ایسی سپریم کورٹ جس کے چیف جسٹس نے خود ایک بنچ بنا کر سوموٹو کے اختیارات اپنے آپ تک محدود کردیئے اور جب ان اختیارات کو محدود کرنے کیلئے قانون بنا تو اس معاملہ میں خود ایک بنچ تشکیل دیدیا اور اپنی ہی سربراہی میں اس قانون کو معطل کردیا، ایک ایسی سپریم کورٹ جو اپنے اندر ہی تقسیم ہے، جس کے چیف جسٹس پر اپنے ہی ججوں نے جانبداری کا الزام لگایا، ون مین شو کے تحت سپریم کورٹ کو چلانے کا الزام لگایا، ایک پارٹی کا ایجنڈا آگے بڑھانے کا الزام لگایا، آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کا الزام لگایا اور پارلیمانی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا،سیاسی کیسوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے صرف اگست میں زیرالتواء کیسوں میں 1570نئے کیسوں کا اضافہ ہوا ہے، مجموعی طور پر زیرالتواء کیسوں کی تعداد 54ہزار 965سے بڑھ کر 56ہزار 544تک پہنچ گئی ہے.
1947ء کے بعد سپریم کورٹ نے سب سے زیادہ زیرالتواء کیسز کا ریکارڈ قائم کیا وہ رواں سال جولائی کا مہینہ تھا جس میں زیرالتواء کیسوں کی تعداد 54ہزار 965تک پہنچ گئی تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عہدہ سنبھالا تو اس وقت زیرالتواء کیسوں کی تعداد 53ہزار 964تھی31دسمبر 2016ء سے جون 2023ء تک چار چیف جسٹسز کے دور میں آج تک جن اہم کیسوں کا فیصلہ ہوچکا ہے .
روزنامہ دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سات سال میں 4چیف جسٹسز کے ادوار میں 1957 رپورٹڈ کیسوں کا جائزہ لیا ہم نے 134اہم سیاسی کیسوں کا بھی جائزہ لیا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن سب سے زیادہ یعنی 63کیسوں کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطا بندیال 52 ، جسٹس منیب اختر 22 ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 11، جسٹس یحییٰ آفریدی 10کیسز، جسٹس منصور علی شاہ 9کیسز اور جسٹس سردار طارق مسعود صرف 7کیسوں کا حصہ رہے.
1823 غیراہم سیاسی کیسز کا فیصلہ کرنے میں جسٹس اعجاز الاحسن سب سے زیادہ 372کیسوں کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطا بندیال 315، جسٹس منصور علی شاہ 302، جسٹس طارق مسعود 241 اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 199کیسوں کا حصہ رہے۔
نگراں حکومت کی جانب سے ڈالر کی سمگلنگ اور بلیک مارکیٹ کیخلاف کریک ڈاؤن کے اعلان کے بعد روپے کی قدر میں بہتری کا سلسلہ جاری ہے، بیس دنوں کے بعد آج ڈالر ایک بار پھر 300روپے سے نیچے آگیا۔