تحریر:افتخار کلوال…لیڈز اپنے دور کے بازو بینی کے نامور پہلوان اکھٹے بیٹھے اور اپنے گزرے دور کی اچھی روایات، اخلاص، محبت اور احترام کی خصوصیات کو یاد کرتے رہیں کیا ہی ادبی لطیفے سننے کو ملیں، یہ ایک شاندار شام تھی، پہلوان حاجی ریاست وطن میں تنگدیو، برطانیہ میں ڈربی ہوتے ہیں، پہلوان ریاض بھگور کے ہیں برطانیہ میں لیڈز ہوتے ہیں،پہلوان رفیق پیر گنوئی اور برطانیہ میں لیڈز ہوتے ہیں، پہلوان راویل ڈربی ہوتے ہیں، پہلوان ندیم ایسر اور برطانیہ میں لیڈز ہوتے ہیں. پہلوان حضرات بتاتے ہیں ماضی کے میلوں میں بڑی رونق ہوتی تھی، میلے میں ایک بار کوئی بچھڑ جائے دوبارہ میلہ ختم ہونے کے بعد ہی ملتا تھا، تب ان مقابلوں کو تفریح کے طور پر لیا جاتا تھا، ہار جیت کا فیصلہ کھلاڑی کی طاقت، تیاری اور صلاحیت پر ہوتا تھا، ہارنے والا ہار قبول کرتا تھا جیتے والا ہارنے والی کی خواہش پر دوبارہ موقع دیتا تھا، تب ہار جیت انا کا مسئلہ نہیں ہوتی تھی، میلے میں ڈنڈا تک لے کر جانے کا رواج نہیں تھا لیکن اب ناصرف اسلحہ لے کر جایا جاتا ہے بلکہ سرعام فائرنگ بھی ہوتی ہے جس سے تفریح کے بجائے خوف کا ماحول بن جاتا ہے، پہلوان حضرات روایتی کھیلوں بارے میں خاصے مایوس تھے، اب وہی پہلوان جیتتا ہےجس کی ریفری فیور کرتے ہیں، اب روایتی کھیل بھی ہمارے معاشرے کی طرح علاقائی اور برادری ازم کا شکار ہیں، گروہ بندی عام ہے ،اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی ریس لگی ہوئی ہے، اس لاحاصل جنگ میں اصل پہلوانی دبتی جارہی ہے، ان نامور پہلوانوں کی خواہش تھی کہ روایتی کھیل جاری رہنے چاہئیں، پہلوانی انسان کو بہت ساری خرابیوں اور برائیوں سے بچاتی ہے، ایک صحت مند معاشرے، قدیم ثقافت اور کلچر کو زندہ رکھنے کے لیے روایتی کھیل (بازوں بینی، کبڈی، بھلگدرو) وغیرہ کے مقابلے ضروری ہیں، یہ تب ہی ممکن ہے جب ہار جیت کے فیصلے انصاف پر ہوں، ہار کو بڑے دل کے ساتھ قبول کیا جائے اور جیت کو کھیل ہی سمجھا جائے، تکبر، غرور اور ہلڑ بازی سے ہارنے والوں کو طیش نہ دلایا جائے، یہ پہلوان لوگ ہمارے خطے کا مثبت چہرہ ہیں، رب کریم انہیں صحت و سلامتی عطا فرمائے۔