• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہِ ربیع الاول کا پیغام اور انقلابِ محمدی ﷺ

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

آج بحیثیت امت مسلمہ ہم اپنی عالمی اور ملکی حالت پر غور فرمائیں تو عالمی سطح پر عالمِ اسلام ذلت آمیز اور رسوا کن حالات سے دوچار ہے۔ ’’انقلابِ محمدیﷺ‘‘ ہماری پوری امت عالم اسلام کی سب سے بڑی اور شدید ضرورت ہے۔ یہ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے جن مقاصد کے حصول اور تکمیل کے لئے اس زمین پر نبی و رسول بنا کر بھیجا۔ وہ مقاصد ’’انقلابِ محمدی ﷺ ‘‘ ہی میں پوشیدہ ہیں۔ 

اپنی اس خواہش ، آرزو یا ضرورت کے حصول کے پسِ منظر میں ہم دنیا کی تاریخ ِ انقلاب ‘‘ پر ایک نظر ڈالیں تو یہ تاریخی حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے وہ جزوی نامکمل اور انسانی زندگی کے کسی ایک آدھ شعبے یا حصے تک محدود تھے، مکمل اور ہمہ جہت انقلاب کوئی نہیں تھا۔ 

دنیا کے چند مشہور انقلابات میں سے ’’انقلاب فرانس‘‘ بہت مشہو ر اورتاریخی انقلاب تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعی ’’انقلاب‘‘ تھا، لیکن اس سے صرف سیاسی نظام میں تبدیلی آئی زندگی کے دیگر شعبے اس کے ثمرات سے محروم رہے۔ دوسرا بہت ہی مشہور انقلاب روس کا ’’بالشویک انقلاب‘‘ تھا ، یہ بھی ایک جزوی انقلاب تھا مکمل اور ہمہ جہت نہیں تھا۔ اس سے صرف معاشی نظام تبدیل ہوا، ایسا ہی معاملہ دیگر انقلابات زمانہ کا ہے۔

لیکن دنیا کا واحد جامع ترین ، کامل و اکمل ، ہمہ جہت انقلاب تاریخ میں صرف اور صرف تاجدارِ ختم نبوت جناب ِ محمد رسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا ’’انقلابِ محمدی‘‘ ہے۔ انقلابِ محمدی ﷺ انسانی زندگی کے کسی ایک گوشے یا شعبۂ حیات تک محدود نہیں، بلکہ پوری انسانی زندگی کو محیط اور زندگی کے ایک ایک گوشے کو بدل دینے والا ، ہر ہر شعبۂ حیات پر اثر انداز ہونے والا اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے کے لئے ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس میں ہر چیز بدل گئی۔ 

مذہب بھی بدل گیا اور عقائد بھی بدل گئے ، مذہب تبدیل ہو کر دین بن گیا اور عقائد توہمات سے بدل کر حقائق بن گئے۔ رسومات بھی بدل گئیں ، سیاسی نظام بھی بدل گیا۔ معاشی نظام بھی بدل گیا۔ معاشرت بھی تبدیل ہوگئی اور عدالت و انصاف کے اصول و قوانین بھی تبدیل ہو گئے۔ انقلابِ محمدی ﷺ نے صرف انسانی دنیا ہی کو نہیں بدلا، بلکہ ’’خود انسان کو پورے کے پورے انسان کو، اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا‘‘۔ 

جو لوگ جانوروں کو پانی پلانے پر ایک دوسرے کی جان لے لیتے اور انسانی خون کے دریا بہا دیتے تھے وہ ایسے بدل گئے کہ اپنے بھائی کو پانی پلانے کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے بن گئے۔ ’’صبغتہ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لےکر بازار تک ، مدرسے سے عدالت تک اور گھروں سے میدانِ جنگ تک چھا گیا، ذہن بدل گئے، خیالات کی روبدل گئی، نگاہ کازاویہ بدل گیا، خیر و شر کے معیار بدل گئے، حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئیں اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ ہوگئی۔ اس پوری کی پوری انقلابی تبدیلی میں جس کا دائرۂ ہمہ گیر تھا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ 

کسی گوشے میں شر نہیں۔ کسی کونے میں فساد نہیں، کسی جانب بگاڑ نہیں۔ ہر طرف بناؤ ہی بناؤ ، تعمیر اور ارتقا ءہی ارتقا ءہے۔ درحقیقت رحمۃ للعالمین ﷺکے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی اور حضور ﷺ نے ایک نظام حق کی صبح درخشاں سے مطلع تہذیب کو روشن کر کے دورِ تاریخ کا افتتاح فرمایا، یہ اتنا بڑا کارنامہ اور اتنا عظیم الشان انقلاب ہے کہ اس کی دوسری مثال دوسری جگہ نہیں ملتی ‘‘۔ (محسنِ انسانیت ، نعیم صدیقی ۳۴؎( یہی مقصد بعثتِ رسالت ہے۔ اللہ نے اسی مقصد کی تکمیل کے لئے اپنے رسول ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔

ماہ ربیع الاول کی آمد اور اس ماہِ مبارک میں جشن آمد رسول ﷺ مناتے ہوئے پوری امت کو بعثت محمدی ﷺ کا یہ مقصد خداوندی پیشِ نظر رکھنا از بس ضروری اور ہر حال میں لازم ہے کہ یہی امت کی ذمہ داری اور اولین فریضہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے رسول ﷺ کا یہ مقصد بعثت تین مرتبہ دہرایا ہے۔ سب سے پہلے سورۂ توبہ میں مقصدِ بعثتِ رسالت کو یوں بیان فرمایا ’’ وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت سچا دین دےکر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیانِ (باطلہ) پر غالب کر دے چاہے یہ مشرکین کوکتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ 

اسی مقصد بعثتِ رسالت کو سورۂ فتح میں دہراتے ہوئے فرمایا کہ ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ (دنیا میں) بھیجا، تاکہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ اس کے بعد دنیا میں رسول اللہ ﷺ کو رسول بنا کر بھیجنے کے مقصد کا اعادہ کرتے ہوئے سورۂ صف میں ارشاد فرمایا کہ ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ وہ اسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے، اگرچہ یہ مشرکوں کوکتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ ‘‘ بعثتِ رسول ﷺ کا یہی مقصد جشنِ آمد رسول ﷺ بھی ہونا چاہئے۔ یہی ماہ ربیع الاول کا پیغام ہے، یہی فلسفۂ میلاد النبی ﷺ ہے۔