• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی پاکستانی، تعلیم میں سب سے پیچھے

رابطہ … مریم فیصل
اگر برطانیہ کی ہاوس آف کامنز کی ریسرچ لائبریری کی تازہ ترین رپورٹ کو دیکھیں تو سوائے دکھ کے کچھ نہیں ملے گا ۔ویسے یہ رپورٹ کہہ وہی کچھ رہی ہے جس کے بارے میں معلوم سب کو ہے لیکن زبان پر لانے سے کتراتے ہیں اوریہی وہ حقیقت ہے جو ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی ہے ۔آخر کونسی حقیقت بیان کر رہی ہے یہ رپورٹ ،چلیں پہلے یہی جان لیتے ہیں ، یہ رپورٹ ہمیں یعنی ہم پاکستان نژاد برطانوی شہریوں کو یہ بتا بلکہ یاد دلا رہی ہے کہ ہم اس معاشرے میں آتو گئے ہیں لیکن اس کا کوئی قابل ذکر حصہ بننے میں ذرا بھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں بلکہ ہم اس معاشرے کی ایسی اکائی ہے جس کا نام صرف ناکامی کے ساتھ ہی جوڑا جاتا ہے حالانکہ ہم تو بہت فخر کرتے ہیں کہ ہم تو یہاں انجینئر ہیں، ڈاکٹر ہیں، بزنس بھی کرتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کے مالک بھی ہیں اور مادر وطن میں ترسیلات بھی تگڑی بھیجتے ہیں، پھر ہم کیسے ناکام اکائی میں شامل ہوئے لیکن یہ رپورٹ تو کہہ رہی ہے کہ برطانیہ میں آباد تمام نسلی اکائیوں میں پاکستان نژاد میں بے روزگاری سب زیادہ ہے ۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ ہم تو جس بھی برطانوی پاکستانی کو جانتے ہیں وہ اپنے اپنے کام کا ماہر اور خوشحال ہے ۔ سب کے سب بر سر روزگار اپنے اپنے کام میں لگے ہیں ،پھر وہ پاکستانی کون ہیں جن کا ذکر یہ رپورٹ کر رہی ہے ، یہ جاننے کے لئے ہمیں پیچھے بلکہ بہت پیچھے جانا ہوگا جب برطانیہ میں لیبر کی کمی پورا کرنے کے لئے کثیر تعداد میں پاکستانی برطانیہ آئے اور یہاں ہی آباد ہوگئے اور اپنی نسلیں بھی بڑھاتے رہے جس زمانے میں یہ لوگ برطانیہ آئے اس وقت حکومتی مراعات بھی بہت ملتے تھے اس لئے لیبر طبقہ ہونے کے باوجود بھی یہ پاکستانی خوشحال تھے ۔یہاں بھی ان کے گھر بن گئے اور وہاں دیس میں بھی اور ویزوں کی سختیاں نہ ہونے کی وجہ سے اپنے رشتے داروں کو بھی یہاں بلاتے گئے آباد کر واتے گئے ۔ انھی پاکستانیوں نے یہاں ٹیکسیاں اور بسیں بھی چلائی اور ریسٹورنٹ بھی کھولے ، مطلب یہاں خوب چمک گئے لیکن معذرت کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے پر بالکل توجہ نہیں دی اور اپنی نسلوں کو بھی برطانیہ کی اعلی تعلیم دلوانے پر غور نہیں کیا کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہی بات جم گئی تھی کہ ہمارا گھر کام کاروبار یہاں سیٹ ہوگیا ہے ہم نے پیسے مطلب پاونڈ بھی جمع کر لئے ہیں جو ہماری اگلی نسلوں کے کام آئیں گے اس لئے ہمیں یا ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم کی کیا ضرورت ، افسوس تو یہ بھی ہے کہ ہمارے انھی پاکستانیوں بھائیوں نے اپنی خواتین کو بھی تعلیم یا ملازمت سے دور رکھاکہ یہ بچے ہی پال لیں مزید اس سے آگے کچھ سوچنے کی کیا ضرورت ہے لیکن ہمارے مقابلے میں دوسری نسلی اقلیتوں نے اس سے مختلف سوچا، خود بھی ترقی کے معنوں کو سمجھا اور اپنی خواتین کو بھی سمجھایا اور اگلی نسلوں میں بھی اسی سمجھ کو منتقل کیا ۔ اسی لئے آج ا س رپورٹ میں بے روزگاروں کی فہرست میں پاکستان نژاد اوپر ہیں، اب اس پر کیا صرف افسوس کرنا ہی کافی ہے یا پھر سیکھنا یا ترقی کرنااس جانب بھی سوچا جا سکتا ہے ، کیونکہ وقت ابھی بھی باقی ہے ۔
یورپ سے سے مزید