کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ماہر قومی سلامتی امور/ دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا ہے کہ جامع اندرونی سیکورٹی پالیسی سے متعلق فریم ورک پیش کیا ہے۔
اصولاً یہ 1989 میں آجانا چاہیے تھا جب افغان جنگ ختم ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے کیوں کہ افغانستان کے اندر جو عدم استحکام رہا ہے اس کا سب سے زیادہ جو منفی اثر ہے وہ پاکستان کی معیشت اور سلامتی پر رہا ہے،ماہر قومی سلامتی امور/ دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے کہا کہ ہر ملک کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا اندراج کرے اور ان تمام لوگوں کا بھی اندراج کرے جو ملک میں مکین ہیں۔
روزآنہ تقریباً ایک لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور 99.9 فیصد کے پاس کسی قسم کی قانونی دستاویز نہیں ہوتی۔ ماہر قومی سلامتی امور/ دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا کہ اپیکس کمیٹی میٹنگ میں نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بہت جامع اندرونی سیکورٹی پالیسی سے متعلق فریم ورک پیش کیا ہے۔
اصولاً یہ 1989 میں آجانا چاہیے تھا جب افغان جنگ ختم ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے کیوں کہ افغانستان کے اندر جو عدم استحکام رہا ہے اس کا سب سے زیادہ جو منفی اثر ہے وہ پاکستان کی معیشت اور سلامتی پر رہا ہے۔اس میں سفارتی پہلو ہے جس میں باوور کرایا گیا ہے کہ افغانستان کو اپنی ٹیرٹری کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دینی چاہیے اور بارڈر کنٹرول بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تمام لوگ رجسٹرڈ ہونے چاہئیں یا تو وہ پاکستان کے شہری ہونے چاہئیں یا وہ ویلڈ ویزا ہولڈر ہونے چاہئیں۔ اگلے ستائیس دن بھی اس لیے دئیے گئے ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو رجسٹرڈ کر لیں یا تو انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
تیسرا پہلو انٹیلی جنس، لاء انفورسٹمنٹ ایجنسیز اور افواج پاکستان اور ضلعی صوبائی حکومتیں اور ڈیپارٹمنٹ ہیں ان کے درمیان بہت قریبی کوارڈی نیشن کا طریقہ کار بتایا گیا ہے تاکہ صوبائی اور ضلعی سطح پر ناصرف ان کی شناخت کی جائے بلکہ مانیٹر کیا جائے اور یکارڈ کیا جائے تاکہ جو غیر قانونی طریقے سے لوگ رہ رہے ہیں ان کی اپنے ملک واپسی یقینی بنائی جائے۔
کچھ پہلو سائبر اور انفارمیشن دائرہ کار میں بھی آتے ہیں کہ جو لوگ نا صرف پروپیگنڈا کر رہے ہیں اینٹی اسٹیٹ ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں پید اکر رہے ہیں ا سکا اہم پہلو ہے کہ اس کو متعلقہ سائبر کرائم سے ایڈریس کیا جائے گا اور آخری پہلو یہ ہے کہ جو موجودہ کریک ڈاؤن چل رہا ہے کرپشن کے خلاف اور ڈرگ اسمگلنگ ذخیرہ اندوزی اور ڈالر کی ترسیل کے حوالے سے وہ بھی اس فریم ورک کا اہم معاشی عنصر ہے اور ا سمیں نہ صرف پاکستان میں بھی اہلکار ملوث ہیں ان کو سہولت پہنچانے میں ان کی بھی شناخت کی جائے گی ان پر بھی کریک ڈاؤن ہوگا۔