• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کو انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس مقدس سرزمین پر ایک نہیں بلکہ کئی انبیاءنے سکونت اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن اور یہ سرزمین اسلام کی جان ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو نجات اسی سرزمین پر ملی، حضرت دائود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت اختیار کی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی سرزمین پر بیٹھ کر دنیا پر حکومت کی، حضرت ذکریا علیہ السلام کا محراب اسی مقام پر ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اِسی ملک کے بارے میں کہتے تھے کہ یہاں داخل ہوجائو، یہ مقدس شہر ہے۔ اسی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی، انہیں زندہ اِسی سرزمین سے آسمان پر اٹھالیا گیا اور قیامت سے قبل وہ اِسی سرزمین پر اتریں گے۔ نبی کریمﷺ اِسی سرزمین سے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیائے کرام کی نمازمیں امامت کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کیلئے معراج پر تشریف لے گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کا حکم دیا۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پہلی مسجد، مسجد الحرام اور دوسری مسجد، مسجد اقصیٰ بنائی۔

فلسطین کی مقدس سرزمین آج پھرلہو لہو ہے، وہاں بسنے والے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، ان پر انہی کی زمین تنگ کردی گئی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینیوں کو انہی کی سرزمین چھوڑنے کا الٹی میٹم دےدیا ہے جسے فلسطینیوں نے مسترد کردیا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کی بے رحمانہ بمباری کا سلسلہ 10 روز سے جاری ہے، صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر اتنے بم گرائے ہیں کہ اتنے بم امریکہ نے افغانستان پر نہیں گرائے تھے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 3ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور ایک ہزار سے زائد افراد ملبے تلے دبے ہیں جبکہ 10لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ دنیا میں جنگوں کے بھی آداب ہوتے ہیں جس میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں نہیں لارہا۔ سوشل میڈیا پر بچوں کی لاشیں اور مائوں کی آہ و بکا دیکھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انتباہ کے باوجود اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی فراہمی بند کردی ہے۔

آج فلسطین جل رہا ہے۔ نہتے فلسطینی اسرائیل کے بمبار جہازوں کے نشانے اور بموں کی زد میں ہیں جبکہ مغربی میڈیا کی کوشش ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسرائیل اپنی ناجائز حکومت اور ناپاک وجود کو قائم رکھنے کیلئے فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے جبکہ انسانی حقوق کے چمپئن امریکہ، یورپ اور بھارت تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں جس سے ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ بھی امریکہ کے سامنے بے بس اور غیر فعال نظر آرہا ہے جس سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور وہ غزہ کی پٹی پر زمینی کارروائی کیلئے بھی پر تول رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور ترکیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور فلسطینیوں پر ظلم ناقابل قبول ہے۔ ایران نے اقوام متحدہ کے ذریعے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں زمینی آپریشن شروع ہوتا ہے تو ایران سخت ردعمل دے گا جبکہ دیگر اسلامی ممالک صرف مذمتی بیانات اور فریقین کو صبروتحمل کی تلقین کرنے تک محدود ہیں ۔تاہم ان ممالک کے عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پاکستان اور مراکو سمیت امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، کینیڈا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف، مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں جس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کا مقدمہ عالمی سطح پر اٹھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ مسجد الحرام سمیت تمام بڑی مساجد میں خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔

ایسے میں جب غزہ کے عوام کیلئے ہر دن قیامت سے کم نہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے غزہ کی صورتحال پر 18 اکتوبر کو جدہ میں اجلاس طلب کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی اپنے پلیٹ فارم سے سخت قرارداد پیش کرے اور اقوام متحدہ پر اسرائیل پر فوراً جنگ رکوانے کیلئے دبائو ڈالے۔ ساتھ ہی او آئی سی کو چاہئے کہ وہ عالمی عدالت انصاف میں غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی پر اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف مقدمہ دائر کرے۔ یاد رہے کہ بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر یوگوسلاویہ کے سلوبدان ملوسک کو عالمی عدالت انصاف نے مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی تھی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اطلاعات ہیں کہ اسرائیل، مسجد اقصٰی کو شہید کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اور فلسطین پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے۔اسرائیل پر ہونے والا حماس کا حملہ بھارت کیلئے بھی ایک سبق ہے، جب آپ ظلم کی انتہا کرکے آزادی کی آواز اٹھانے والوں کو دیوار سے لگادیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے ان کو اور ان کی آواز کو دبا دیا ہے تو ایسے ہی سانحے جنم لیتے ہیں۔ اگر کوئی ظالم کسی قوم کے علاقے پر قابض ہوجائے، 30 لاکھ افراد قیدی بنالئے جائیں اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جائے تو وہ خاموش کیسے رہیں گے۔ غزہ کے فلسطینیوں نے بھی یہی سوچا کہ ہم کیوں نہ ظالموں کو بھی ساتھ لے کر مریں۔

انبیا کی سرزمین فلسطین آج کربلا کا منظر پیش کررہی ہے۔ اسرائیل کے محاصرے اور پانی بند کرنے سے غزہ کے عوام پانی کو ترس رہے ہیں۔ اگر 1400 سال پہلے اس وقت تمام مسلمان مظلوموں کا ساتھ دیتے تو شاید سانحہ کربلا پیش نہ آتا۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کی بربریت کے خلاف فلسطینی عوام کی آواز بنے۔ اگر آج بھی دنیا کے دو ارب مسلمان ایک آواز بن جائیں اور او آئی سی صرف مذمتی بیانات تک محدود نہ رہے تو مسلمانوں کی نسل کشی اور کربلا جیسے دوسرے سانحے کو روکا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین