ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بھارت کے خلاف احمد آباد میچ کی شکست کے بعد ایسا لگ رہا تھاکہ پاکستان ٹیم اگلے میچوں میں سنبھل جائے گی۔ لیکن بنگلور میں آسٹریلیا اور چنئی میں افغانستان کے ہاتھوں حیران کن شکست نے شائقین کرکٹ کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ بابر اعظم کی بیٹسمین کی حیثیت سے کلاس سے سب واقف ہیں وہ بلاشبہ دنیا کے مانے ہوئے بیٹسمین ہیں لیکن کپتان بننے کے بعد ان کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ کہتے ہیں کہ کپتانی کا بوجھ نہیں جب بیٹنگ کرتا ہوں تو صرف اپنی بیٹنگ کرتا ہوں جب کپتانی کی باری ہوتی ہے تو پوری کپتانی کرتا ہوں۔ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کلک نہیں کرپارہی۔
فیلڈنگ میں فوکس پورا نہیں ہورہا۔ بھارت سے شکست کے بعد دباؤ میں رہنے والی بات درست نہیں۔ میں خود فٹنس پر خاص توجہ دیتا ہوں۔ صبح کی واک مس نہیں کرتا کھانے پینے میں محتاط رہتا ہوں۔ پاکستان ٹیم جب بھارت پہنچی تو حیدرآباد اور دیگر شہروں میں بریانی،چانپوں اور دیگر دیسی کھانوں کا بار بار ذکر سن کر میں بھی حیران ہوگیا کہ کوئی کھلاڑی اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں کس طرح بد احتیاطی کرسکتا ہے۔
بابر اعظم خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے خراب بولنگ اور ناقص فیلڈنگ کی ہے جس سے لگتا ہے کہ ہماری فٹنس کا معیار درست نہیں ہے۔ سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ میں اب کیا کھلاڑیوں کے انفرادی طور پر نام لوں جن کے اتنے بڑے بڑے منہ ہوگئے ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے روزانہ 8 ،8 کلوکڑاہی کھاتے ہوں، نہاری کھاتے ہوں ان کھلاڑیوں کا ٹیسٹ بھی تو ہونا چاہیے۔
شرمندگی کی بات ہے کہ افغانستان 2 وکٹوں کے نقصان پر 280 جیسا بڑا اسکور بنا گیا، وسیم اکرم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کھلاڑیوں کا فٹنس لیول دیکھیں، ہم کئی ہفتوں سے ٹی وی اسکرین پر چیخیں مار رہے ہیں کہ 2 سال سے کھلاڑیوں کا فٹنس ٹیسٹ نہیں ہوا۔ مجھے بھی وسیم اکرم کا یہ بیان سن کر حیرت ہوئی ۔ میرے خیال میں نیوزی لینڈ کے جان رائٹ جب بھارتی ٹیم کے ہیڈ کوچ بنے تو انہوں نے بھارتی ٹیم میں فٹنس کا کلچر متعارف کرایا۔ آج پوری بھارتی ٹیم فٹنس پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ویرات کوہلی سمیت کئی کھلاڑی کی فٹنس مثالی ہے۔
مصباح الحق کے دور میں پاکستانی ٹیم کی فٹنس پر توجہ دی جاتی تھی۔جب ہم ایسے شخص کو ڈائریکٹر کرکٹ بنائیں گے جو انگلینڈ سے بیٹھ کر آن لائن کوچنگ کریں گےاور ان کے کوچنگ اسٹاف میں شامل دیگر غیر ملکی بھی کھلاڑیوں سے فٹنس کاکام لینے میں ناکام ہیں۔ ورلڈ کپ میں جو ہوا اس کا پوسٹ مارٹم پی سی بی کرے گا۔ لیکن جب کھلاڑی سینٹرل کنٹرل کے معاوضوں کے لئے پی سی بی سے لڑ رہے تھے۔پی سی بی نے دو سو فیصد معاوضے بڑھا دئیے، مگر کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے انصاف نہیں کیا۔پاکستان افغانستان میچ ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل اس وقت زیرِ بحث آیا تھا جب پی سی بی کی جانب سے اس کے شیڈول میں تبدیلی کی غیر معمولی درخواست کی گئی تھی۔
یہ میچ گراؤنڈ کے اندر ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ اس سے باہر ہونے والے جھگڑوں اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کے باعث بھی خاصا بدنام ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ابراہیم زدران کا حق تھا کہ وہ اپنے ملک کے باشندوں کے بارے میں بات کریں تاہم کچھ لوگوں کے خیال میں انہیں میدان میں جا کر ایک سیاسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کھیل کو کھیل تک ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ پاکستانی ٹیم اگر اچھا کھیلتی تو شائد بابر اعظم کی کپتانی پر سوالات نہ اٹھتے اور ٹیم بھی غیر ضروری بحث میں نہ الجھتی۔