اسلام آباد(خالد مصطفیٰ) پاکستان آج تہران میں ہونے والے مذاکرات میں ایران سے درخواست کریگا کہ وہ فروری مارچ2024 کی اس مہلت میں نرمی کرے جو پاکستان کو اپنے علاقے میں پائپ لائن شروع کرنے کا پابند کرتی ہے اور ایسانہ کرنے کی صورت میں 18 ارب ڈالرکا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
ایران نے نومبر دسمبر 2022میں پاکستان سے کہا تھا کہ یا تو فروری مارچ 2024 تک اپنے علاقے مین گیس پائپ لائن کی تعمیر شروع کرے یا پھر 18 ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کےلیے تیاررہے۔
پاکستانی وفد آج ایرانی مذاکرات کاروں سے استدعا کریگا کہ وہ پاکستان کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں 18 ارب ڈالر کا مقدمہ لے کرنہ جائے۔
وزیرتوانائی محمد علی آج تہران پہنچ سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار نگران وزیراعظم سے کلیئرنس ملنے پر ہے تاہم متعلقہ حکام تہران پہنچ چکے ہیں۔ وزیر توانائی محمد علی کرغیزستان سےوطن واپس پہنچ چکے ہیں۔
پاکستان ایرانی حکام کو یہ بھی بتائے گا کہ وہ اس موخر شدہ گیس پائپ لائن کے مںصوبےپر تیسری پارٹی کے ذریعے عملدرآمد کی کوششیں کر رہا ہے تاکہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے نتائج سے بچا جاسکے۔
حکومت نے اس حولاے سے امریکا کے متعلقہ محکموں سے بھی رابطہ کرکے یہ بتانے کی استدعاکی ہے کہ یہی بتادیاجائے کہ اگر پاکستان نے اپنے علاقے میں آئی پی گیس پائپ لائن تعمیر کی تو اس سے لگنے والی پابندیوں کا پاکستانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔
امریکی حکام نے تاحال اس استدعا پر کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا لیکن امریکی حکام کہتے ہیں کہ گیس پائپ لائن کے پاکستانی معشیت پر حقیقی اثرات بتانا ایک بہت طویل عمل ہے۔ تاہم فرانسیسی کنسلٹنٹس کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیاں بلاجواز ہیں اور نہ ہی پاکستانی معیشت پر اس کا کوئی اثر پڑےگا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے ادارے انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم آف پاکستان نے نیشنل ایرنیان گیس کمپنی سے ستمبر 2019 میں گیس پائپ لائن کی تعمیر کےلیے نظر ثانی شدہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ نظر ثانی شدہ معاہدے کے مطابق 2024 تک ایران کسی عالمی عدالت کے پاس جائےگا نہ پاکستان کوئی جرمانہ اداکریگا۔
پاکستان 2024 کے بعد اپنی طرف کی پائپ لائن تعمیر کرنے کا اہل ہوسکے گا۔ نظرثانی شدہ معاہدے کے تحت ایران کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ اگر پاکستان فروری مارچ 2024 تک پائپ لائن تعمیر نہیں کرپاتا جس کے ذریعے سے اسے 750 ملین کیوبک فٹ گیس یومیہ بنیادوں پر لینا ہوگی تو ایران کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ عالمی ثالثی کےلیے رجوع کرے اور پاکستان سے 18 ارب ڈالر کا جرمانہ طلب کرے۔
ایران نے دسمبر 2022 میں پاکستان کو پھر یادہانی کرائی تھی کہ اس نے فروری مارچ 2024 تک اس پروجیکٹ کو مکمل کرنا ہے۔
اس معاہدےپر 2009 میں 25 برس کےلیے دستخط ہوئے تھے تاہم 12 سال ہونے کو آئے ہیں اور پاس کے بعد بھی پاکستان نے پائپ لائن کی تعمیر کلےیے تین سال ضائع کر دیے ۔ معاہدے کے تحت پاکستان کو نوابشاہ سے ایرانی سرحد تک 781 کلومیٹر طویل پائپ لائن مکمل کرنا تھی ۔
ابتدائی معاہدے کے تحت پاکستان یکم جنوری 2015 سے ایران کو 1 ملین ڈالر یومیہ ادا کرنے کا پابند ہےاور بالفرض ایران پاکستان کے خلاف عدالت میں جاتا ہے تو پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرنا پڑین گے۔ ابتدائی سمجھوتے کے تحت یہ پروجیکٹ دسمبر 2014 تک مکمل ہوتا تھا اور یکم جنوری 2015 سے گیس کی ترسیل ہونا تھی۔