غزہ میں7اکتوبر سے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوںکا قتلِ عام اور نسل کشی ،جس میں بارہ ہزار کے لگ بھگ مسلمان شہید ہوچکے ہیں ، کو رکوانےکیلئےمسلم ملک آخر کار حرکت میں آہی گئے۔ اگرچہ سعودی عرب نے عرب لیگ اور او آئی سی کا الگ الگ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بعد میں سعودی حکام نے او آئی سی اور عرب لیگ کے ساتھ مشاورت کے بعد ہفتے کو غزہ کی صورتِ حال پر غیر معمولی مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کافیصلہ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یا نے ٹیلی وژن پر عرب رہنمائوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ! اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا منہ بند رکھیں ۔ اس بار اسلامی رہنمائوں سے اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن ہمیشہ کی طرح اس تاریخی اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رہنما اسرائیل کیخلاف کوئی ٹھوس اور سخت اقدام اٹھانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے، اگرچہ اس اجلاس کے دوران چند ایک ممالک نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کیلئے 5 مختلف تجاویز پیش کیں لیکن انہیںپذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔
سربراہی اجلاس میں اسرائیل کیخلاف جو تجاویز دی گئیں ان میں اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی کیلئے امریکی فوجی اڈوں کے استعمال سے روکنا، اسرائیل کیساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات منجمد کرنا، پٹرول کی ترسیل روکنا، عرب فضائی حدود میں اسرائیلی شہری ہوا بازی کو روکنا، غزہ پر حملے رکوانے کے مطالبے کو دنیا تک پہنچانے کیلئے عرب وزراء کی کمیٹی کو قائم کرنےجیسے اقدامات شامل تھے لیکن بدقسمتی سے ان تجاویز کو پذیرائی نہ ملی، صرف اسلامی ممالک کے رہنمائوں کے ٹھاٹ باٹ ہی نظر آتے رہے۔ عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی کانفرنس کے میزبان سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان نے کہا کہ اسرائیل نے جو کیا ہے اسے یہ بھگتنا ہوگا۔ انہوں نے فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی کارروائیوں کو جنگی جرائم قرار دیا۔
اردن کے بادشاہ عبداللہ نے کانفرنس سے خطاب میں اسے خونریز جنگ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تنبیہ کی کی ’’ورنہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ جائیگا ۔ فلسطین کے محمود عباس نے فلسطین میں جاری نسل کشی کو روکنے کیلئے عالمی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اسرائیلی فوج کو دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہوئے اس جنگ کو پھیلانے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری پر دنیا کی خاموشی شرمناک ہے، غزہ پر اسرائیل کے حالیہ ظلم اور تشدد کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی،غزہ میں بچوں کی بکھری لاشیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ایردوان نے کہا کہ پیرس میں چند افراد کی ہلاکت پر عالمی برادری متحد ہو جاتی ہے تو غزہ پر اسرائیلی بمباری پر دنیا کی خاموشی شرمناک ہے، غزہ میں اسپتالوں، ایمبولینسوں، اسکولوں پر حملے قابل مذمت ہیں، مسجد اقصیٰ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، اسرائیلی حکام کے مظالم کا عالمی عدالت میں احتساب ہونا چاہئے۔
صدر ایردوان نے بعد ازاں وطن واپسی پر اپنے بیان میں کہا کہ جس طرح ہم، ترکیہ کے طور پر، اپنے شہریوں کا تحفظ کرتے ہیں، اسی طرح ہم اپنے پڑوسیوں سے لے کر اپنے خطے اور دنیا بھر کے مظلوموں کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔ ہم نے کئی صدیاں جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کو بلا تفریق تحفظ فراہم کیا تھا ،اب بھی مظلوموں کو تحفظ فراہم کریں گے۔میں نے چند روز قبل وطن واپسی پر طیارے میں کہا تھا کہ اےنیتن یاہو، ابھی تمہارے اچھے دن ہیں لیکن اب دن بدلنے والے ہیں ، تم جان لو!اب تم جانے ہی والے ہو۔ حملوں میں شہید ہونے والے کم سن بچوں ، تین سے 5 سال کی عمر کے کفن میں لپٹے ہوئے بچوں کی مائوں نے اپنے ہاتھوں سے ان کو دفن کیا۔ ان مائوں کی آہ ضرورتمہیں لگے گی ، مظلوموں کی آہ وفریاد تمہارا کبھی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ایردوان نے کہا کہ اس وقت اہم بات عالم اسلام کے درمیان اتحادو یکجہتی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ترکیہ کا فلسطین اور غزہ سے اتحاد و یکجہتی اور تعاون کو ہر صورت جاری رکھنا ہے۔ عالمِ اسلام کی نظریں ترکیہ پر مرکوز ہیں۔ ہم نے ماضی میں بلقان اور قفقاز سے بے دخل افراد کو اپنے ہاں بسایا ۔ ہم نے بلا امتیاز سب کو اپنے ہاں پناہ دی اورانکی مدد کی۔ ہم غزہ کے گھروں میں والدین کو اپنے ہاتھوں سے بچوں کو دفن کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے، یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے ؟ ۔
اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے غیر معمولی مشترکہ سربراہی اجلاس میں فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے علاوہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کو عالمی عدالت میں پیش کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ صدر ایردوان نےاجلاس کے اعلامیے میں یہودی آباد کاروں کو دہشت گرد قرار دینے کی تجویز کو جگہ دئیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کا وہ خود جائزہ لیتے رہیں گے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ غزہ میں فائربندی اور قتلِ عام رکوانے کی اپنی کوششوں کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ان پر عمل درآمد شروع نہیں کردیا جاتا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)