اسلام آباد( رپورٹ:، رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے سابق ڈائریکٹر جنرل ’آئی ایس آئی‘ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ )فیض حمید سمیت آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کے 105اہلکاروں کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور اغوا ء برائے تاوان جیسے سنگین الزامات سمیت پر مبنی آئینی در خواست کی8نومبر کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اگر درخواست گزار معیز احمدکان، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) فیض حمید وغیرہ کیخلاف وزارت دفا ع میں شکایت درج کراتا ہے تو اسکی درخواست پر قانون کے مطابق غورکیا جائے گا تاہم درخواست گزار دیگر قانونی فورم سے بھی قانون کے مطابق دادرسی کے حصول کیلئے رجوع کرنے میں آزاد ہے،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات ہیں اور اگر درست ہیں تو بلا شبہ اس سے وفاقی حکومت،مسلح افواج ،آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی بدنامی ہوگی ،اس لیے ان الزامات کو نظر انداز کرکے چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔ عدالتی حکمنامہ میں جسٹس اطہر من اللہ کا دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی شامل ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثا قب نثار کی جانب سے فریقین کو چیمبر یا میٹنگ روم میں بلانا شفاف ٹرائل کے اصول کے منافی تھا ، دوسری جانب عدالت نے اسی معاملہ سے متعلق سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں دائر،زاہدہ نامی ایک خاتون کی شکایات پر، اسوقت کے چیف جسٹس (ثاقب نثار)کی ان چیمبر کارروائیوں کو غیر آئینی و غیرقانونی قرار دیدیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز فیض حمید وغیرہ کے خلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیف ایگزیکیٹیو/ درخواست گزار رمعیز احمد کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست کی سماعت کا تین صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا ہے جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قلمبند کیا ہے ،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرد، فیض حمیدوغیرہ پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں ،جن میں کہا گیا ہے کہ فیض حمید نے دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ مل کر اپنے ریاستی عہدے کا غلط استعمال کیا اور انکے حکم پر انکے ماتحتوں نے جرم کیا ہے ، فیصلے میں درخواست گزار کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تفصیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز (پنجاب)کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر درخواست گزار کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مارا،اسے اور اس کے اہل خانہ کو قید کیا،انہیں لوٹا اور درخواست گزار کو مجبور کیا کہ وہ اپنا کاروبار،ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی فیض حمید کے نامزد کردہ شخص کے نام پر منتقل کرے جبکہ درخواست گزار ، اسکے اہل خانہ اور ملازمین کے خلاف جھوٹے مقدمات بھی قائم کروائے گئے ،الزامات کے مطابق فیض حمید ،ان کے ماتحت افراد اور پاکستان رینجرز (پنجاب )کے اہلکاورں نے مسلح افواج کے ملازم ہوتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل حفیظ الرحمان چوہدری سے پوچھا کہ کیا ایک ذاتی شکایت کے معاملے پر آئین کے آرٹیکل 184/3کا اطلاق ہوسکتا ہے؟ زیر غور معاملہ کیسے مفاد عامہ میں آتا ہے؟ جس میں بنیادی حقو کا تحفظ مانگا گیا ہے ؟ توفاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مخالف فریقین نے اہم عہدوں پر ہوتے ہوئے انکے موکل کے بنیادی حقو ق پامال کیے ہیں اور شکایت کرنے پر کوئی اتھارٹی یا ادارہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا ،فیصلے کے مطابق عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کرکے ان سے معلوم کیا کہ کیا اس صورتحال میں داد رسی کا کوئی فورم موجود ہے اور کیا درخواست گزار کی یہ شکایت درست ہے کہ ان کی شکایت پر کارروائی نہیں ہوگی ؟تو انہوں نے موقف اختیار کیا کہ داد رسی کے لیے درخواست گزار کے پاس وزارت دفاع سمیت متعدد فورم موجود ہیں، درخواست گزار چاہے تو ان کے خلاف وزارت دفا ع میں شکایت درج کراسکتا ہے جبکہ یہ ان کے خلاف فوجداری یاسول نوعیت کے مقدمات بھی دائر کرسکتا ہے۔