وجیہہ نوین
غور کیجئے، اس وقت پاکستان میں نوجوانوں کی تعد65 فیصد کے لگ بھگ ہے، گویا آدھی آبادی کو مستحکم بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعمیر فکر میں سب سے بڑا عنصر تعلیم ہے، جس کا تخمینہ اور معیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، نوجونواں کو بہترین اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور یونیورسٹیوں میں تحقیق اور نئی ایجادات کے فروغ کو یقینی بنایا جائے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں مہارت فراہم کرنا اور پھراسے ملک کے لیے استعمال کرنا پاکستان کو دنیا میں سرفراز کروا سکتا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں تعلیمی شعبے میں ابھی تک جدید ٹیکنالوجی سے وہ استفادہ نہیں کیا جا سکا جو دیگر ممالک کررہے ہیں۔
ہمیں جدید طرز تعلیم کو اپنانا ہوگا، معاشی طور پر مستحکم نوجوان مالی وسائل سے بے نیاز ہوکر ہی دل جمعی، لگن اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو انٹرنیشنل مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں پر انحصار کے بجائے ملکی سطح پر پیداوار اور افزائش کو ترویج دینے کی بھی اشد ضرورت ہے، تاکہ باصلاحیت نوجوانوں کو روزگار کی تلاش میں ملک سے ہجرت نہ کرنی پڑے، وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے قوم کے لیے صلاحیتوں کو وقف کر سکیں۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا جانا چاہیئے، تا کہ کارخانے سرگرم عمل ہو سکیں۔
حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے سائنس کے میدان کو وسیع کیا جائے، ان کی صلاحیتوں کے مطابق تحقیقی میدان فراہم کیے جائیں، اور غیر فعال تحقیقی اور سائنسی اداروں کو فعال کیا جائے، تاکہ نوجوان دنیا کی دوڑ میں ایجادات اور تحقیقات کر سکیں۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ نوجوانوں کو عالمی ٹرینڈز سے روشناس کروایا جائے اور ان کو ایسے شعبوں میں تعلیم دی جائے جن کی ضرورت اس وقت عالمی سطح پر محسوس کی جا رہی ہے۔
آئی ٹی کے شعبے میں ترقی روشن ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد ہے اس سے نہ صرف بے روزگاری کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے گا بلکہ کثیر زر مبادلہ بھی حاصل ہونے کے واضح امکانات ہیں۔انجنیرنگ اور آئی ٹی یونیورسٹیوں کے سلیبس کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آئی ۔ سی۔ ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) تک رسائی عام طلباء کے لئے ممکن بنائی جائے۔تحقیقی اداروں اور ویب سائٹس کو قومی سطح پر مفت کیا جائے اور ایسے وکیشنل سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی ہنر مند بنایا جا سکے، تاکہ وہ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
جدید ٹیکنالوجی نہ صرف آج کے نوجوان طلباء کی تعلیمی استعداد میں اضافہ کرتی ہے بلکہ انہیں ایک روشن مستقبل کی ضمانت دے کر انہیں ایک بلند معیار زندگی کو اپنانے کا موقعہ دیتی ہے۔ نہ صرف وہ زندگی کے صحیح راستے پر گامزن ہوتے ہیں بلکہ قوم کے لئے نشان راہ بن کر اسے عالمی افق میں ایک ممتاز مقام دلاتے ہیں کیونکہ وہی ملک کی پہچان بھی بنتے ہیں اور فخر بھی۔
دوران تعلیم نوجوان تمام تر سیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے دور رہیں، تاکہ ان میں لسانیت، قومیت اور عصبیت کے عناصر پروان نہ چڑھ سکیں۔ تحقیق و تصنیف سے وابستہ نوجوانوں کو مناسب معاوضہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد رہ کر کام کر سکیں۔
وہ سوشل میڈیا کو فقط مثبت امور میں رہنمائی کی غرض سے استعمال کریں، مصنوعی ذہانت میں قدم جما کر ملکی اداروں کو مستحکم کریں۔ فکر، بیان، اور عمل میں اعتدال کی راہ اپنائیں۔ اپنوں سے دست و گریباں ہونے کے بجائےاُن کے لیے ہمدردی اور احساس کے جذبات کو فروغ دینا بھی وقت کی ضرورت ہے۔نمودِ سحر کی نوید کا استعارہ بننا ہےتو جذبہِ خودی کو بیدار کرنا ہوگایہ ایسے امور ہیں جن کے ذریعے آج کے نوجوان اپنے مستقبل کی ترقی اور تعمیر کا بیج بو سکتے ہیں، یہ ہی ایک تنا آور درخت کی صورت میں اپنی پوری آب و تاب سے آنے والی نسلوں کی حفاظت کرسکے گا۔