حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن نکتۂ حکمت سے لبریز اسے کہا جاتا ہے۔ خدا نے اسے بہت گنوں سے نوازا۔ اس کا عالم وجود میں آنا سجاوٹ کا ساماں بنا مگر شرط یہ رہی کہ عورت ڈھکی چھپی رہے بھلے وہ سات پردوں میں یا گھروں میں قید نہ ہو مگر اس کا پیکر شرم و حیا سے سجا رہے۔ یہ رسوائی کا سبب نہ بنے کہ عورت کے دم سے رونقوں کا تصور ختم نہ ہو۔کل آنے والے حالات کے لئے شاعر نے یہ خوب مشورہ بھی دیا تھا اور اسی مشورے میں ایک پیغام بھی تھا کہ آنے والے حالات کیلئے کہ کون جان سکتا تھا کہ حوا کی بیٹیوں پر طوائف الملوکی سے بھی برا وقت آئے گا کہ وہ ناچ گانے والیوں سے بھی زیادہ بدنام ہوں گی، معاشرے میں طوائف کے کاروباری علاقے تو عام رہائشی علاقوں سے ذرا ہٹ کر ہوتے ہیں۔ جہاں ان کے ناچ گانے اور دیگر اسی سے متعلق بازار سجائے جاتے ہیں۔ وہاں ہر خاص و عام منہ چھپا کر جائے یا دھڑلے سے جائے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان دور دراز اور پوشیدہ علاقوں میں تماشے بھی چھپ کر لگتے ہیں کہ سرعام ایسے کھیل سے معاشرے کے ہر فرد پر برا اثر نا پڑے اور شرفاء خاندانوں کو غلط پیغام نہ پہنچے اور معاشرے کی نسل کو بھی۔ ہر ملک و معاشرے میں لکھاری طبقہ ایک حساس ترین طبقہ ہوتا ہے وہ اپنی نثر و کلام کے ذریعے معاشرتی ابتری و انارکی اور پھیلتی برائیوں پر قلم اٹھاتا ہے وہیں عورت کی بے چارگی اور مظلومیت پر بھی آواز اٹھائی جاتی ہے۔ وہیں پر انہیں معاشرے کی نہایت مدبر، باوقار اور قابل احترام ہستی و حیا کا پیکر جان کر بھی ان کی بہتری کیلئے قلمی و غیر قلمی تحریک چلائی جاتی ہے۔ اسی تحریک میں پیغام ہوتا ہے کہ معاشرے میں عورت کو اپنے قدم مضبوطی سے گر جمانے ہیں تو مردوں سے اپنی عزت و توقیر کرانا ہوگی، اقدار و تہذیب، شرم و حیا کو سونے کا نہیں لوہے کا مضبوط زیور پہننا ہوگا۔ یعنی بقول شاعر کے کہ اپنے آنچل کو صرف آنچل ہی نا سمجھنا بلکہ اسے پرچم میں تبدیل کر کے اپنے جسم کے گرد لپیٹ لینا۔ غلیظ نظریں تمہارے جسم کے آر پار نہ ہو جائیں، تمہارا کمزور وجود بے بس نہ ہوجائے تو تم اپنے اس آنچل کا پرچم بنا کر اپنے حقوق کیلئے ڈٹ جانا مگر یہ تمام باتیں اب بہت سی معاشرتی خواتین کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ معاشرے میں بہت سے حوا زادیوں نے اپنے آنچل، شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ دیا انہیں اب مشرقی تہذیب، مذہب، اسلامی ملک و معاشرہ، والدین کی عزت و بدنامی، ایک روایت کی پاسداری، دید لحاظ سبھی کو اپنی زندگی سے نکال پھینکا ہے۔ نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹک ٹاک کی اس دنیا نے طوائف الملوکی کی جیسی بے حیائی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ رقاصاؤں نے تو اپنا ناچ گانا یا برے کام چھپ چھپا کر کئے کہ معاشرے میں کچھ عزت کا بھرم رہ جائے مگر یہ ٹک ٹاکرز خواتین کا تو جہان ہی نرالہ ہے وہاں ان کا نا کوئی بھی خدا ہے نا کسی مذہب کی فکر ہے اور نہ ہی کسی اپنے پرائے کی پروا! ٹاک ٹاکرز نے اپنا ایک علیحدہ سے جہان بنا لیا ہے جہاں غلیظ گفتگو جاری رہتی ہے نا صرف مردوں میں بلکہ مرد خواتین تمام برابر ہوئے ہیں اس جہان میں ! پاکستانی بیٹیاں خود کو عریاں لباس میں اور گندی ترین گفتگو میں بھول جاتی ہیں کہ وہ کیا کررہی ہیں اور ان باتوں کا کون فائدہ اٹھاتا ہے، توبہ بعض ٹک ٹاکرز خواتین راتوں کو جاگ کر مرد ٹک ٹاکرز کھلی گفتگو کرتے ہیں بعض مرتبہ خواتین سرعام کہتی ہیں کہ ’’بس میں تمہارے عشق میں گرفتار ہوگئی ہوں، مجھے بہت ہی زیادہ اچھے لگنے لگے ہو تو میرے ساتھ وقت گزارو‘‘۔ معلوم نہیں پھر کون سی گیم کھیلتے ہیںایسی خواتین کیلئے کہا جا رہا ہے کہ یہ پیسوں کی ہوس میں اندھی ہوچکی ہیں، یہ جس قدر شیطان کو خوش کریں گی اسی قدر انہیں پیسے ملتے ہیں، اس لالچ نے ان سے ان کی عزت چھین لی لوگ ایسی خواتین کو منہ بھر بھر غلیظ گالیاں دے رہے ہیں، جتنی گالیاں آج کل کے دور میں ان ٹک ٹاکرز خواتین کو مل رہی ہیں ایسی ذلت تو کسی ناچ گانے والی کی کسی دور میں نہیں ہوئی، پھر یہ دیکھئے کہ سارا جہان سرعام یہ شیطانی کھیل دیکھ کر انجوائے کرتا ہے کچھ بھی چھپا نہ رہ گیا ان خواتین کا ! دید، شرم و حیاس سبھی ختم ہو کر رہ گیا۔ لگتا ہے اب یہ ٹک ٹاکرز اپنی مقبولیت، دولت اور شہرت کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں تو پھر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں پشت در پشت یہ ٹاک ٹاکرز کا جہان ہی دکھائی دیتا ہے اور تو اور لوگوں نے اپنے بچے تک اس کام پر لگا دیئے ہیں ان کی تعلیم و تربیت سے زیادہ ان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے کی فکر انہیں زیادہ ہے کچھ ہوش نہیں ان چھچھورے والدین کو سوائے اپنے بچوں کو ٹک ٹاک تک محدود رکھنے کے، اب تو روزگار کیلئے ٹاک ٹاکرز خواتین کو تعلیم اور پیشہ اپنانے سے زیادہ ٹک ٹاک پر وائرل ہونے کا طریقہ، ٹک ٹاک ویڈیوز کا طریقہ اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے طریقے سیکھنے ہوتے ہیں اور پھر بے حیائی کے کمپٹیشن میں جانا ہوتا ہے۔ قوم کی بیٹیوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔