تحریر۔۔۔۔ سید علی جیلانی۔۔۔ سوئٹزرلینڈ پاکستانی ٹیم کے لئے 1992کے بعد ورلڈ کپ جیتنا ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔ آسٹریلیا سب سے کامیاب ٹیم ہے جو اب تک پانچ مرتبہ فاتح رہی، ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو مرتبہ جب کہ پاکستان اور سری لنکا ایک ایک بار عالمی چیمپئن رہے۔ ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم مایوس کن کارکردگی کے بعد سیمی فائنل سے قبل ہی واپس وطن روانہ ہوگئی، شاہینوں کو انگلینڈ کے ہاتھوں 93رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔پاکستانی قوم کوکرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستانی ٹیم ہارتی ہے تو قوم بڑے غم و غصے کا اظہار کرتی ہے، پاکستانی ٹیم پتہ نہیں 50اوورز میں اتنی جلد بازی کیوں کرتی ہے لگتا ایسا ہے کہ یا تو ان کو پویلین جانے کی جلدی ہے یا انکی ٹرین چھوٹنے والی ہے کریز پرپہنچ کر سب اپنی زمہ داریاں بھول جاتے ہیں بس ایک وکٹ گرتی تو ہمارے بیٹسمینوں کو پویلین جانے کی جلدی پڑھ جاتی ھے غیر ضروری شارٹس کو کھیلنا باہر جاتی بالز کو چیھڑنا اور آسان کیچ دینا بعض اوقات تو ایسا لگتا تھا کہ یہ جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں یا پھر سیاست چل رہی یا پھر کوئی گروپنگ ہورہی ہے اس ورلڈ کپ میں کافی غلطیاں اور کمزوریاں رہیں اس لیے باہر ہوئے، ہم تینوں شعبوں میں ناکام رہے لیکن خاص طور پر بولرز پرفارم نہ کر سکے، بولرز تھکے ہوئے دکھائی دیے اسپن اٹیک کا نہیں چلنا مایوس کن بات ہے فیلڈرز بھی کوئی مہارت نہ دکھا سکے پاکستان کی فیلڈنگ کا معیار وہ نہیں جو ٹاپ ٹیموں کا ہے جس کی بنیادی وجہ ڈومیسٹک اور گراس روٹ لیول پر فیلڈنگ کو اہمیت نہ دینا ہے فیلڈنگ ایسا شعبہ ہے جس میں سب سے زیادہ فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پلیئر کو 90سے 100اوور گراؤنڈ میں رہنا پڑتا ہے جس کےلیے فٹنس ضروری ہے ہمارے کلچر میں فیلڈنگ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، 10، 15منٹ کے فیلڈنگ پریکٹس سیشن سے دنیا کی بہترین ٹیموں سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت حتیٰ کہ افغانستان کی فیلڈنگ بھی بہتر ہے۔ ہمیں فیلڈنگ کو بھی بیٹنگ اور بولنگ کی طرح وقت دینا ہوگا بیٹنگ میں بھی ہمیں ماڈرن ڈے کرکٹ کے مطابق کھیلنا ہو گا کرکٹ نام ہے فائٹ کا اور اگر آپ اچھا کھیل کر اور فائٹ کرکے ہار جاؤ تو کسی کو افسوس نہیں ہوتا کیونکہ کسی نہ کسی ٹیم کو تو ہارنا ہوتا ہے ہر پاکستانی کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری ٹیم ہر شعبے میں یعنی بیٹنگ باؤلنگ اور فیلڈنگ میں اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کرے ہماری ٹیم کسی ورلڈ کپ میں کبھی بھی رن ریٹ پر توجہ نہیں دیتی اور پھر انتظار میں رہتی ھے جیسا اس ورلڈ کپ میں پاکستان کا سیمی فائنل میں پہنچنے کا دارومدار نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان میچ پرتھا، اگر اس میں کیوی ٹیم ہار جاتی یا میچ بارش کی نذر ہوتا تو قومی ٹیم کو انگلینڈ کو صرف شکست دینا ہوتی کیونکہ اس وقت تک افغانستان اور جنوبی افریقا کے میچ کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہماری تاریخ ہے کہ ہم پہلے سے کچھ نہیں کرتے، ہم ردعمل میں ہی کرتے ہیں، باقی ٹیمیں آتے ہی چھا جانے کی کوشش کرتی ہیں، ہم اس وقت جاگتے ہیں جب ہم پر پریشر آتا ہے اور بعد میں اچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب خطرہ سر پر منڈلاتا ہے، ہمیں یہ چیز بہتر کرنے کی ضرورت ہے شاہین سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکے تو کم ازکم انگلینڈ سے میچ جیت کر تو واپس آتے لگتا ایسا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کے کھلاڑیوں کو50 اوورز کی ٹیم کا حصہ بنایا گیا نو میں سے صرف چار میچوں میں کامیابی نے پاکستان کی ورلڈ کپ کی تیاری کو بری طرح بے نقاب کردیا اب سوچنا یہ ہے کہ یہ وقت چلا گیا اب آگے کیا کرنا ہے لوگ وہ ہی اچھے ہوتے ہیں جو ماضی سے سبق سیکھتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو سدھارتے ہیں جس طرح ایک بچہ تیاری کرکے امتحان دیتا ہے لیکن فیل ہوجاتا ہے اگلے سال وہ بہت زیادہ محنت کرتا ہے اور کامیاب ہوجاتا ہے کرکٹ بورڈ کوچ اور سلیکڑ کی زمہ داری ہے کہ غور کریں کہ کس شعبے میں ہمیں محنت کی ضرورت ہے کہاں کہاں ہماری کمزوریاں ہیں جو ہم نے سدھارنی ہیں ٹیم کی بہتری کیلئے تسلسل بہت ضروری ہے۔ سلیکشن میں تسلسل کا ہونا ضروری ہے، ایسا ماحول ضروری ہے جس میں پلیئرز کھل کر کھیل سکیں ٹیم کی ناکامی کی انکوائری کرائی جائے اور غیر ملکی کوچنگ اسٹاف سے جان چھڑائی جائے صرف کپتان ہارجیت کا ذمے دار نہیں، سب کا کردار ہوتا ہے کھلاڑیوں کو بھی اس ورلڈکپ میں اپنی کارکردگی کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو اگلے دورہ کے لیئے بہتر بنانا ہے ہمیشہ میرٹ پر کھلاڑی کا سلیکشن کریں پاکستان میں بے انتہا ٹیلنٹ ہے اور وہ دن دور نہیں جب کامیابی ہمارے قدم چومےگی پوری قوم کو اپنے پاکستانی سبز شا ہینوں پر فخر ہے۔