شفیق منصور
پاکستان میں نوجوان کل آبادی کا 63 فیصد ہیں۔ اتنی بڑی تعداد جو ملک اور اپنے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے اورجو جوش سے معمورہے، وہ بے سمت ہے، ان کا بری طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا، الٹا ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ وہ عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
ماہرین معیشت کے مطابق ہم اس وقت ایسے دَور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔
اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں، وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقع کی کمی سے پریشان ہیں۔نوجوان پاکستان سے محبت کرتے ہیں، وہ اس کی ترقی کے لیے حصہ ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کیسے، ان کے پاس کھلی راہیں نہیں ہیں، انہیں کسی بھی شعبے کا حصہ بننے سے دور رکھا جاتا ہے۔ ان کا بس یہ مصرف ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے ووٹوں میں اضافہ کریں۔
پاکستان میں ہر مسئلے کے لیے قوانین اور پالیسیاں تو بنا دی جاتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ ایسے ہی نوجوانوں کے لیے بھی متعدد پالیسیاں متعارف کرائی گئیں اور ہر حکومت کی جانب سے بڑے بڑے دعوے بھی کیے جاتے ہیں لیکن ان معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جاتا۔ ان کوششوں میں بھی زیادہ تر جس چیز پہ زور دیا جاتا ہے وہ روزگار کے وسائل پیدا کرنا اور نوجوانوں کی معاشی کھپت جیسے امور ہوتے ہیں، جو طویل المدتی اقتصادی منصوبوں پر استوار نہیں ہوتے، بلکہ وقتی اور سیاسی مفادات کے حصول کی غرض سے یہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ نوجوانوں سے متعلقہ دیگر تمام مسائل نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ چونکہ روزگار اور معاشی کھپت کے ذرائع اس قدر محدود اور مسدود ہوچکے ہیں کہ اگر نوجوانوں کو قطرہ قطرہ بھی دستیاب ہوتا ہے تو وہ اسی کو غنیمت جانتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ ریاستی و انتظامی ڈھانچہ ہے، جس کے تحت نوجوان نسل کی ذہنی تشکیل ہوئی ہے، جس میں شہریت اور حقوق کے بارے میں لاعلمی یا غلط معلومات کا فروغ ہوا ہے۔
بدترین سیاسی دھینگامشتی، بے قاعدگیوں اور بے اصولیوں کے باوجود بھی نوجوانوں اکثریت اشرافیہ کی جنگ کا ایندھن بننے پر آمادہ ہے۔
یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ اشرافیہ کا یہ طبقہ چاہے حکومت میں ہویا اپوزیشن میں، بھول کر بھی نوجوانوں کو شہریت، حقوق اور حقیقی سیاسی شعور کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتا۔ کیونکہ اس پر سیاسی و غیرسیاسی اشرافیہ سب کا اتفاق ہے کہ عوام کو ان کی طاقت اور ان کے حقوق کا اندازہ نہیں ہونے دینا، اگر کچھ بتانا ہو بھی تو خود کو محور بنا کر، اور بس اتنا کہ ان کی اپنی جنگ میں نوجوانوں کا جوش کام آسکے۔
اس ملک کے سماجی مسائل کتنے بڑے اور تباہ کن ہیں، جنہیں اسی نوجوان نسل نے بھگتنا ہے،مگر اس بابت کوئی آگہی نہیں اور کوئی اقدامات نہیں ہیں۔ ان مسائل کی ایک طویل فہرست ہے، مگر یہ کیسے حل ہوں گے، صرف ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات ہی اتنے گہرے اور متنوع الجہات اثرات کے حامل ہیں کہ یہی ہماری تباہی کے لیے کافی ہیں۔ اس کے باوجود مسئلے کی سنگینی اور منصوبہ بندی پر کوئی بحث ہی نہیں۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا عفریت ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں میں بیٹھ چکا ہے۔
نوجوانوں کو ملک کے ہر سنگین مسئلے سے لاعلم رکھا جاتا ہے یا انہیں غلط معلومات پہنچائی جاتی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے موجودہ صورتحال میں بھی اپنی توجہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے دیگر معاملات میں مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش اور صاف نیت اس بات کی متقاضی ہے کہ نوجوانوں کو ان مسائل کے حل کا حصہ بنایا جائے۔ ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کیا جائے۔ انھیںدرست معلومات فراہم کی جائیں۔ اصولی طور پہ دیکھا جائے تو نوجوانوں کے حوالے سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ جس پہلو سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان کا جدید ریاستی نظام پر اعتماد بحال کیا جائے، انہیں شہریت و حقوق کی بے غبار معلومات دی جائیں، تاکہ کنفیوژن ختم ہو اور ان کے لیے سیاسی وسماجی سمت واضح ہو۔ ورنہ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ عام نوجوان کا ریاستی ادارہ جاتی ڈھانچے کے اندر کسی بھی شعبے میں کوئی احترام نہیں اور نہ اس کی بہبود کو محور بنا کر کوئی پالیسی مرتب کی جاتی ہے، جس مقام تک یہ ملک آ ج پہنچا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رِیت کب تھمے گی۔
پاکستان میں بدقسمتی سے کئی دیگر حساس معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے واضح منصوبہ بندی کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال کر سکے بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلے جو ان کی اور ملک کی بہتری کےلئے کسی طور مناسب نہ تھی۔
آخر ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کب ہوگا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان کے قومی ترقی اور بہود میں کردار کو مزید وسعت دی جائے، تاکہ پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر سکے۔ آج کے مادیت زدہ دور میں ملکِ پاکستان کو علم و تحقیق اور فکر و آگہی کے میدانوں کے شہسواروں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی مستقبل کی قیادت سنبھال کر دنیائے تحقیق میں سطوتوں کے علم بلند کریں۔