پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ایک اور مشکل مشن شروع ہونے کو ہے۔ آسٹریلیا کا دورہ ہمیشہ دنیا کا سخت ترین دورہ ہوتا ہے جس میں دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو کارکردگی دکھانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کی خراب کارکردگی کے بعد بابر اعظم نے کپتانی چھوڑ دی ،ٹیسٹ اوپنر شان مسعود کو کپتان مقرر کردیا گیا۔
دورہ آسٹریلیا میں پاکستان ٹیم کو 14 دسمبر سے 7 جنوری تک 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنا ہے، اس دوران فتح کا مشکل مشن مکمل کرتے ہوئے ورلڈکپ میں ناکامیوں کے داغ مٹانے کی کوشش ہو گی، مکی آرتھر کو فارغ کردیا گیا۔گرانٹ بریڈ برن، پیوٹک اور مورنی مورکل نے بھارت میں ناکامی کی قیمت ادا کردی۔ اب محمد حفیظ کو ڈائریکٹر بناکر انہیں ٹیم کا مکمل چارج دے دیا گیا۔
ٹیسٹ فاسٹ بولر وہاب ریاض کو انضمام الحق کی جگہ چیف سلیکٹر بنا یا گیا۔جبکہ عمر گل فاسٹ بولنگ،سعید اجمل اسپین بولنگ کوچ کی ذمے داریاں نبھائیں گے۔ پاکستانی ٹیم کے تمام ملکی کوچز کو بھی فارغ کردیا گیا ہے۔ منیجر ریحان الحق کو بھی ذمے داریوں سے سبکدوش کرکے سنیئر بیورو کریٹ نوید اکرم چیمہ کو منیجر اور منصور رانا کو منیجر آپریشنز بنایا گیا ہے۔شاہد اسلم اور عبدالمجید بھی پاکستانی ٹیم کے ساتھ ایک اور اننگز کھیلنے کو تیار ہیں۔ شان مسعود کی قیادت میں دور ہ آسٹریلیا کے لیے پاکستان کی اٹھارہ رکنی ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کردیا گیا ہے۔
اس دورہ میں پاکستان کرکٹ ٹیم 14 دسمبر سے 7 جنوری کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلے گی۔پاکستانی ٹیم کا اعلان چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے کیا۔ یہ چیف سلیکٹر بننے کے بعد وہاب ریاض کا پہلا اسائنمٹ ہے۔ وہ گزشتہ ہفتے چیف سلیکٹر بنائے گئے تھے۔بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے 34 سالہ شان مسعود پہلی بار پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کریں گے۔ انہیں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ25-2023 کے لیے قیادت کی ذمہ داری بابراعظم کی جگہ سونپی گئی ہے ، 22 سالہ صائم ایوب نےاس سیزن کی قائداعظم ٹرافی کے چار میچوں میں تین سنچریوں کی مدد سے553 رنز بنائے جس میں فیصل آباد کے خلاف فائنل میں میچ وننگ ڈبل سنچری قابل ذکر تھی۔انہوں نے اپنی شاندار فارم کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان کپ ایکروزہ ٹورنامنٹ میں بھی سب سے زیادہ 397 رنز بنائے اور وہ ٹورنامنٹ کے بہترین بیٹر قرار پائے۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے دائیں ہاتھ کے 23 سالہ فاسٹ بولر خرم شہزاد نے اس سال قائداعظم ٹرافی میں 20.31 کی اوسط سے سب سے زیادہ 36 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کپ ا یک روزہ ٹورنامنٹ میں بھی عمدہ بولنگ کرتے ہوئے 13 وکٹیں حاصل کیں۔ پیس آل راؤنڈر فہیم اشرف جو آخری مرتبہ ٹیسٹ میچ انگلینڈ کے دورہ پاکستان میں کھیلے تھے ٹیم میں واپس آئے ہیں اسی طرح محمد وسیم جونیئر اور میرحمزہ کی بھی ٹیسٹ ٹیم میں واپسی ہوئی ہے۔ یہ دونوں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیم کا حصہ تھے جو دسمبر، جنوری میں کھیلی گئی تھی۔
پاکستان کی اٹھارہ رکنی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔شان مسعود ( کپتان ) عامرجمال، عبداللہ شفیق، ابرار احمد، بابراعظم، فہیم اشرف، حسن علی، امام الحق، خرم شہزاد، میرحمزہ، محمد رضوان، محمد وسیم جونیئر، نعمان علی، صائم ایوب، سلمان علی آغا، سرفراز احمد، سعود شکیل اور شاہین شاہ آفریدی۔ چیف سلیکٹر وہاب ریاض کا ٹیم کے سلیکشن پر کہنا ہے کہ ٹیم آسٹریلیا کی چیلنجنگ کنڈیشنز کو مد نظر رکھتے ہوئے منتخب کی گئی ہے۔
وہاں کی پچز کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیز بولرز زیادہ ٹیم میں رکھے گئے ہیں تاکہ تین ٹیسٹ میچوں میں کامبی نیشن تیار کرنے میں آسانی رہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حارث روف نے سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کردیئے ہیں تو وہ پاکستان ٹیسٹ ٹیم کی جانب سے کھیلنے سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں۔
وہاب ریاض نے کہا کہ وہ ہمارے پلان میں تھے ان سے بات چیت ہوچکی تھی لیکن حارث نے بتایا کہ انہوں نے ذہن بدل دیا ہے وہ ٹیسٹ میچ نہیں کھیلنا چاہتے۔ بائیں ہاتھ کے اوپننگ بیٹر صائم ایوب اور فاسٹ بولر خرم شہزاد پہلی مرتبہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل اچھی بولنگ کرنے والے میر حمزہ کو دوبارہ پاکستان ٹیم میں جگہ ملی ہے۔ صائم ایوب کو ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار پرفارمنس پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے انہوں نے قائداعظم ٹرافی اور پاکستان کپ دونوں میں متاثرکن کارکردگی دکھائی ہے۔ ان کی شمولیت سے ٹیم کی بیٹنگ مزید مضبوط ہوگی جو پہلے ہی مضبوط ہے۔ پاکستان نے آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز اس سال سری لنکا میں جیت سے کیا ہے اور امید ہے کہ ٹیم آسٹریلیا میں بھی اس مومینٹم کو برقرار رکھے گی۔
ہم نے کوشش کی ہے کہ سلیکشن میں وہ تمام ضروری وسائل شامل کیے جائیں جن سے آسٹریلیا میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ ایک جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے کپتان سمیت پوری ٹیم انتظامیہ کو تبدیل کردیا ہے لیکن دوسری جانب وزارت بین الصوبائی رابطہ نے انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ الیکشن کرائیں اور پی سی بی بورڈ آف گورنرز تشکیل دیں۔ وزارتِ بین الصوبائی رابطہ نے 15نومبر کوپاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک اور خط لکھاہے اوروزارتِ بین الصوبائی رابطہ نے ذکا اشرف کی مینجمنٹ کمیٹی کو امور کے حوالے سےآگاہ کردیا۔
پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کو تین ماہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن 4 نومبر کو جاری ہوا تھا۔مینجمنٹ کمیٹی ،بورڈ آف گورنرز تشکیل دے اور جلد سے جلد چیئرمین پی سی بی کے الیکشن کرائے،مینجمنٹ کمیٹی روز مرہ کے امور دیکھے، اعلیٰ عہدے پر تقرریاں نہ کرے، ذرائع کے مطابق خط میں لکھا ہے کہ پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کو تین ماہ سے زائد توسیع نہیں دی جائے گی۔وفاقی کابینہ نے بھی مینجمنٹ کمیٹی کو چیئرمین کے انتخابات، بورڈ آف گورنرز تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی ہیں ،مینجمنٹ کمیٹی سے چیئرمین پی سی بی کے انتخابات، بورڈ آف گورنرز تشکیل دینے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔
چئیرمین کو باور کرایا گیا ہے کہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ٹاسک کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور وزارت سے رپورٹ شیئر کریں۔ذکا اشرف کو یاد دلایا گیا ہے کہ مینجمنٹ کمیٹی کی جانب سے اعلی عہدے پر تقرریوں کو اختیارات کا غلط استعمال سمجھا جائےگا۔ مینجمنٹ کمیٹی ہفتہ وار رپورٹ ترتیب دےکر وزارت کو اپنے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کرسکتی ہے۔
پاکستان کرکٹ اس وقت مشکل ترین دور سے گذر رہی ہے۔پی سی بی سیٹ اپ عارضی ہے اور کسی کو علم نہیں ہے کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دورے کے بعد اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر ذکا اشرف چند ہفتوں میں پی سی بی سے رخصت ہوتے ہیں تو اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ ان کی حالیہ تقرریاں آئندہ بھی برقرار رہیں گی۔
مکی آرتھر اور دیگر غیر ملکی کوچز کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد شاید اب غیر ملکی پاکستان ٹیم کے ساتھ کام کر نے اور معاہدہ کرتے وقت دس بار سوچیں گے۔ سسٹم اس قدر کمزور ہے کہ کسی کو وقت ہی نہیں مل رہا۔ راتوں رات ٹیم بنانے کے لئے کسی کے پاس کوئی چراغ نہیں ہے۔ اس لئے مضبوط سسٹم ہی پاکستان کرکٹ کو اوپر لے جاسکتا ہے۔ راتوں رات ٹیم کو بہتر بنانے کی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔