اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنسز میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں کی سماعت 29 نومبر تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ معذرت کیساتھ چارج درست فریم ہوا نہ ہی نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں، عدالت کو خود پتا نہیں تھا کہ مریم نواز کا کیس میں کردار کیا ہے، کیا وہ مرکزی ملزمہ ہیں یا ان پر اعانت جرم کا الزام ہے، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا جب کرپشن ہی نہیں تو پھر آمدن سے زائد اثاثے کیسے آ گئے، نیب نے خود تفتیش کی ہوتی تو وہ کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوتے، عدالت نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی زبانی استدعا پر درخواست دینے کا کہا تو بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نواز شریف ہنسی خوشی عدالت میں آتے ہیں، استثنیٰ کی درخواست تو نہیں دینگے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر عدالت ہوا میں تو آرڈر نہیں کر سکتی ، سب کچھ قانون قاعدے سے ہی چلنا ہے ناں ، ہم استثنیٰ نہیں دینگے، ایک عوامی نمائندہ کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کیخلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر نواز شریف اپنے وکلا بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ ، امجد پرویز اور دیگر کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نعیم طارق ، افضل قریشی ، رافع مقصود اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران لیگی رہنماوں کی بڑی تعدادبھی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں دلائل کا آغاز کیا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ یہ جو فیکٹ آپ نے دئیے کیا یہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کے ہیں؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تین حقائق ریفرنس سے پہلے جبکہ باقی بعد کے ہیں ، 2017 میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی ، وکیل نے پانامہ کیس کی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہاکہ میں اس معاملے پر تین سے چار منٹ میں بات مکمل کر لوں گا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ جے آئی ٹی کا ٹی او آر کا سکوپ کیا تھا؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ 20 اپریل کو بنچ نے سوالات اٹھائے کہ ان کا جواب جے آئی ٹی دے گی۔ عدالت نے استفسار کیاکہ جے آئی ٹی میں کتنے لوگ تھے؟ وکیل نے بتایا کہ عامر عزیز بھی جے آئی ٹی کا حصہ تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیاکہ ان کا نام کہاں ہے؟ نواز شریف کے وکیل نے جے آئی ٹی کی تشکیل ، ٹی او آرز اور جے آئی ٹی ارکان سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 20 اپریل کے آرڈر میں تشکیل اور اختیارات ہیں۔ عدالت نے استفسار کیاکہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کہاں ہیں؟ وکیل نے کہاکہ اسی آرڈر میں ٹی او آرز دئیے گئے ہیں ، 20 اپریل کے فیصلے میں جے آئی ٹی کو تفتیش کا اختیار دیا گیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے میاں نواز شریف کے ارد گرد کھڑے تمام افراد کو نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جے آئی ٹی کو دئیے سوالات عدالت میں پڑھ کر سنائے اور کہاکہ کہا گیا اس معاملے پر مکمل تفتیش کرنے کی ضرورت ہے ، 5 مئی کو پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ، جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی ، دس والیم پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی ، رپورٹ جمع ہونے کے بعد دلائل مانگے گئے ، 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ دیا اور وزیر اعظم پاکستان کو نااہل قرار دیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوایا گیا یا نیب ریفرنس دائر کرنے کی پابند تھی؟ اس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے نیب کو فیصلے کے چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ نواز شریف ، مریم نواز ، حسین نواز ، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا ، فیصلے کی روشنی میں نواز شریف ، حسین اور حسن نواز کیخلاف العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس دائر کیا گیا ، احتساب عدالت کو چھ ماہ میں ریفرنس پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف بری ہوئے تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیاکہ کیا نیب نے اپیل دائر کی تھی؟ جس پر وکیل نے کہاکہ نیب کی اپیل عدالت میں زیر سماعت ہے۔ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال اور ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال کی سزا ہوئی ہے۔ العزیزیہ ریفرنس میں نیب نے سزا بڑھانے کی اپیل دائر کررکھی ہے۔ریفرنس اس وقت دائر ہوا جب نواز شریف اور مریم نواز برطانیہ میں تھے اور وہ برطانیہ سے آکر عدالت میں پیش ہوئے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا کوئی وارنٹ گرفتاری کا آرڈر نہیں تھا۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اور فرد جرم سے پہلے نواز شریف نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کہا کہ ہماری کسی بھی آبزرویشن کا اثر لئے بغیر فیصلہ دے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں 19 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی ، والیم دس ایم ایل اے پر مشتمل تھا ، ہم نے والیم دس مانگا جو میں فراہم نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کیا ٹرائل کے دوران والیم دس سے کسی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین نیب نے یکم اگست کو معاملہ تفتیش کیلئے ڈی جی نیب لاہور کو بھیجا۔