اسلام آباد(رپورٹ،رانا مسعود حسین)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ احتساب سب کا کریں، مارشل لاؤں کو جواز دینے والے ججز کی تصاویر کمرہ عدالت میں ہونی چاہئیں؟،آئین توڑنے پر غاصب کو سزا نہ بھی ملے پھر بھی تسلیم کریں ماضی میں جو ہوا وہ غلط تھا، آمروں کیساتھ کھڑے صحافی بھی برابر کے ذمہ دار ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز کا بھی ٹرائل ہونا چاہئے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے خود پر حملے کے بعد مشرف کیخلاف کارروائی کی، آئین توڑنے پر کیوں نہیں کی؟ آئین توڑنا ججوں پر حملوں سے بڑا جرم ہے، پرویز مشرف کی جانب سے12اکتوبر 1999کو ملکی آئین توڑنے کا اقدام ملک میں 3نومبر 2007کی ایمرجنسی کے نفاذ سے بھی سنگین جرم تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ جاری کرے اور اس پر عملدرآمد نہ ہوپائے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف(مرحوم) کیخلاف سنگین غداری کیس کے ٹرائل کیلئے قائم خصوصی عدالت کو کالعدم کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئیں اپیلوں کی سماعت مکمل کرلی ہے جبکہ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کے فیصلے کیخلاف مجرم پرویز مشرف کی اپیل کی سماعت 10جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے اپیل گزار کے وکیل سلمان صفدر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلی سماعت پر عدالت کی اس نقطہ پر قانونی معاونت کریں کہ کیا وفات کے بعد مجرم کی سزا کے خلاف دائر اپیل ختم ہوجاتی ہے؟ اگر مجرم پرویز مشرف کی ملک و قوم کے ساتھ سنگین غداری کے جرم میں سزا برقرار رہتی ہے تو اس کے قانونی ورثاء کو ملنے والی پنشن و دیگر مراعات کے علاوہ اس کے اور کیا کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو کہا ہے کہ وہ مجرم پرویز مشرف کی جانب سے 12اکتوبر 1999کو آئین توڑنے کی آئینی توثیق پر بھی عدالت کی قانونی معاونت کرتے ہوئے بتائیں کہ کیوں نہ ان کے موکل پرویز مشرف کے خلاف 12اکتوبر کے اقدامات پر بھی کارروائی کی جائے؟ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10جنوری 2024تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اس دوران سلمان صفدر اپیل کنندہ کے قانونی ورثا سے ہدایات لینے کی کوشش کریں گے اور میڈیا میں تشہیر کے ذریعے اپیل کے بارے میں معلوم ہونے پر بھی قانونی ورثا خود ہی عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ سزا برقرار رہنے کی صورت میں فوجی قوانین کی روشنی میں مجرم پرویز مشرف کو ملنے والے ایوارڈز اور پنشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ جاری کرے اور اس پر عملدرآمد نہ ہوپائے؟۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران ملک میں مارشل لاؤں کے نفاذ اور ان کی توثیق کا معاملہ بھی زیربحث آیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آبزرویشن دی کہ آئین توڑنے پر اگر غاصب کو سزا نہ بھی ملے تو بھی کم از کم یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ ماضی میں ملک کے اندر جو ہوا تھا، وہ غلط تھا؟ انہوں نے کہا کہ جرمنی اور اٹلی میں فسطائیت تھی، اسپین اور جنوبی افریقہ میں آمریت رہی ہے لیکن سب نے غلطیوں کو تسلیم کیا ہے، اب ہمیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو غلط کہنا ہوگا، میڈیا سمیت سب کا احتساب ہونا چاہئے، وہ صحافی جو آمریت میں آمروں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں وہ بھی اس سب کچھ میں برابر کے ذمہ دار ہیں، ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بتانا چاہئے کہ کیا غلط تھا اور کیا درست؟ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جوکچھ بھی ہو چکاہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کیا ساؤتھ افریقہ میں سب کو سزا ہی دی گئی تھی؟ قوم بننا ہے تو ماضی کا جائزہ لیکر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے، سزا اور جزا سے ہٹ کر اسے دیکھنا ہوگا، کئی بار قتل کے مجرم بھی بچ نکلتے ہیں، سزا اور جزا کا معاملہ اوپر بھی جائے گا، انہوں نے مزید کہ کہ وکیل یہاں آکر ہمیں بتائیں ناں کہ آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں ہی اس کمرہ عدالت میں کیوں لگی ہیں،کیا آئین سے روگرادنی کرکے ایک فرد واحد کی تابعداری کا حلف اٹھانے اور مارشل لاؤں کو جواز دینے والے ججوں کی تصاویر اس کمرہ عدالت میں ہونی چاہئیں؟۔