• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد خان بھٹی کیس میں قانونی سقم، پرویز الٰہی دیگر ملزمان کے بچنے کا امکان

لاہور(آصف محمود بٹ) وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پرمحمد خان بھٹی کی مبینہ غیر قانونی تعیناتی پر انٹی کرپشن کی طرف سے درج کئے گئے کیس میں قانونی سقم ہونے کی وجہ سے پرویز الہی سمیت دیگر ملزمان سزا سے بچ سکتے ہیں،مسعود مختار، آصف طفیل کو عدالتی اجازت کے بغیرہی وعدہ معاف گواہ بنانا قانونی ،تکنیکی غلطی ہے،ذرائع کا کہناہےکہ چالان بھی پیش نہیں ہواجبکہ انٹی کرپشن حکام کےمطابق چالان جمع ہوچکا، وعدہ معاف گواہ بنا نے کا اختیار ہے،۔ معتبر ذرائع نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ محکمہ انٹی کرپشن کی اس مقدمہ میں درج ایف آئی آر نمبر 30/23کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن نمبر SL2-2/2022(B)کے تحت محمد خان بھٹی کو غیر قانونی طور پر پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر پنجاب کے عہدے پر ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا اور کنفرمیشن کے لئے سمری سیکرٹری سروسز مسعود مختار نے 26جولائی 2022کو وزیر اعلی آفس بھجوائی جس کو سیکرٹری (کوآرڈنیشن) برائے وزیر اعلی ڈاکٹر آصف طفیل نے 27جولائی 2022کو وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے جاری مذکورہ احکامات کو کنفرم کیا جبکہ پنجاب رولز آف بزنس 2011اور پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974کے تحت پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلی ٰکی سیٹ پر کسی سپیشل ادارہ کا ملازم ڈیپوٹیشن پر کسی کیڈر سیٹ تعینات نہیں ہوسکتا۔ ایف آئی آر کے مطابق چودھری پرویز الہی نے اپنی ذاتی حیثیت اور اثر رسوخ کاناجائز استعمال کرتے ہوئے محمد خان بھٹی جوکہ سپیشل ادارہ پنجاب اسمبلی کا ملازم تھا کو خلاف ضابطہ، خلاف قانون اور سیاسی و مالی منفعت کے لئے بطور پرنسپل سیکرٹری تعینات کیا۔ ملزمان بالا نے جرم زیر دفعہ PCA 5(d)2/47کا رتکاب کیا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انسداد رشوت ستانی ایکٹ کی یہ دفعات ان سرکاری افسران پر لگتی ہیں جو کریمنل مس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے ہوں یا انہوں نے کرمنل کنڈکٹ کرنے کی کو شش کی ہو ۔ ان دفعات کے تحت 7سال تک قید ، جرمانہ یا پھر دونوں سنائی جاسکتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ دفعات اس وقت لگائی جاتی ہیں جب کسی افسر نے کسی کریمنل مس کنڈکٹ کے ارتکاب پر کوئی مالی فائدہ حاصل کیا ہو ۔ پہلے مذکورہ دو سینئر بیوروکریٹس کو مقدمے میں نامزد کیا اور پھر بیوروکریسی کی طرف سے شدید تحفظات اور دباؤ اور یہ بات ثابت ہونے کے بعد کہ مذکورہ افسران نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ صرف وزیر اعلی کے احکامات پر عمل کیا ، محکمہ انٹی کرپشن نے ان افسران کو اس کیس میں وعدہ معاف گواہ بنا دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ مقدمہ کا تفتیشی افسر یا اور کوئی بھی افسر نامز دملزمان جو سرکاری ملازم یا افسر ہوں کو مقدمے میں اس وقت تک ’’Approver‘‘ یعنی سرکاری گواہ نہیں بنا سکتاجب تک اس کی اجازت مجاز عدالت نہ دے۔ ذرائع نے بتایا کہ سرکاری گواہ بنانے کے لئے ایک عدالتی پراسس ہوتا ہے جس میں پہلے نامزد ملزم عدالت کے روبرو بیان دیتے ہیں کہ وہ اس جرم کے ارتکاب میں شریک تھے ۔ اس کے بعد پراسیکیوشن کی استدعا پر کسی ملزم کو عدالت’’ سرکاری گواہ ‘‘ بنانے کی باقائدہ اجازت دیتی ہے۔
اہم خبریں سے مزید