• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان
7اکتوبر 2023کو اسرائیل اور حماس کے مابین خوفناک جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی بہت بڑی تعداد میں غزہ اور اسرائیلی علاقہ میں افراد ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں، دونوں اطراف میں فرق یہ ہے کہ ایک طرف جدید ترین ہتھیار، ٹرینڈ آرمی اور دوسری طرف محدود تعداد میں حماس کے راکٹ اور نہتے عوام ہیں، آئے روز کی تباہی و ہلاکتوں کی تفصیل دنیا بھر کا میڈیا شب و روز بتا رہا ہے۔ ہم غزہ کے جغرافیائی حدود اربع اور اس علاقے میں رہنے والی کمیونٹیز کی مشکلات اور اس خطے کی تاریخ پر تو مختصرا بات کریں گے لیکن حالیہ جنگ میں کس فریق کی زیادتی ہے اور کس کی نہیں اس موضوع پر کبھی پھر گفتگو ہوگی، یوکے کی معروف چیرٹی المصطفی ویلفئر ٹرسٹ جو دُنیا بھر کے آفت ذدہ ممالک، قدرتی آفات اورمستحقین کی امداد کیلئے انسانی بھلائی کے درجنوں منصوبے چلا رہی ہے اسی طرح یہ تنظیم کئی سال سے فلسطینیوں کی مدد دواؤں، کھانے پینے کی اشیا اور مالی طور پر کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسجد اقصی میں اُردن کے ہاشمی ٹرسٹ کے تعاون سے مسلمانوں کی دینی و مالی امداد کرتے ہیں چند روز قبل ایک تقریب کے دوران المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئر مین عبدالرزاق ساجد نے میری معلومات میں بہترین اضافہ کیا کہ 25میل لمبی اور 08میل چوڑی لہو لہو غزہ کی پٹی میں جہاں دو ملین سے کچھ زیادہ لوگ بستے ہیں لیکن یہاں صرف مسلمان ہی نہیں تقریباً چار ہزار عیسائی بھی رہتے ہیں اور یہ کمیونٹی بھی اکثریتی مسلمان کمیونٹی ہی کی طرح اسرائیلی بموں اور گولیوں کی ذد میں ہے، عبدالرزاق ساجد بتا رہے تھے کہ فلسطین میں ریلیف ایفرٹس میں مصروف ان کی ٹیم کے مطابق ابھی کچھ روز پہلے ہی غزہ کے ایک قدیم گرجا گھر جو یونانی آرتھوڈوکس فرقے کا ہے جس کا نام سینٹ پروفیررس ہے پرہوئے حملے میں کم ازکم 16فلسطینی عیسائی مارے گئے ہیں۔غزہ کے اس یونانی آرتھوڈکس گرجا گھر میں لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں کو چھوڑ کر پناہ لئے ہوئے تھے ان میں 500کے قریب فلسطینی عیسائی تھے۔ اسرائیل نے 20اکتوبر کو اس چرچ پر فضائی حملہ کیا۔ اس گرجا گھر کے یروشلم آرتھوڈکس کے ذمہ داروں نے غزہ شہر میں گرجا گھرپر ہونے والے اس اسرائیلی فضائی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ اس گرجا گھر کے پادری نے حملہ کی اطلاع ذمہ داروں کو پہلے ہی دے دی تھی کیونکہ عیسائی اورمسلمانوں دونوں ہی گرجا گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ اس چرچ کے پادری الیاس نے کہاکہ گرجا گھر پر کوئی بھی حملہ صرف مذہب پر نہیں بلکہ ساری انسانیت پر حملہ تصور ہو گا، اس چرچ میں پناہ گزین عیسائی فیملیز کا کہنا ہے کہ ہماری زندگیوں میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ ہم کرسمس کی خوشی منا سکیں گے اور نہ ہی Bethlehem جا سکیں گے جو حضرت عیسیؑ کی جائے پیدائش ہے، چنانچہ 4000 فلسطینی عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح غزہ میں محصور ہیں۔ اسرائیل نے گر جا گھر کوہونے والے نقصان پر جواز پیش کیاہے کہ حماس جان بوجھ کر شہری علاقوں میں اپنے اثاثوں کو پھیلاتی ہے اورغزہ پٹی میں رہائشیوں کو انسانی ڈھال کے طور پراستعمال کرتی ہے۔ شاید اسرائیل کی حکومت عیسائیوں سے کوئی پرانا حساب لے رہی ہے لیکن مسلمانوں کے ساتھ تو یہودیوں کے تعلقات برادرانہ رہے ہیں۔ اس خطے میں تینوں مذاہب، یہودیوں،عیسائیوں اور مسلمانوں کی تھوڑی سی تاریخی حقیقت یوں ہے کہ رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کردی تھی۔ انہیں دربدر کیا، ظلم کیے اور ان کا قتل کیا، جان بچانے اور سکون سے جینے کیلئے یہودی ان علاقوں کی طرف رخ کرتے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد بیت المقدس سے یہودیوں کو نکالا گیا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت ملی اور یہ اجازت حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے دی، جب کہ اس سے پہلے عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی، تاریخ بتاتی ہے کہ اُس وقت کے عیسائیوں نے ’’قبۃ الصخرۃ‘‘ (Dome of Rock) کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا کیونکہ یہودی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ اس چٹان کے اوپر سے کچرہ امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا، مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی معراج والی رات اس چٹان پر سے براق اوپر آسمانوں کو گیا تھا۔ پھر جب بھی صلیبی جنگ کے بعد عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعدطویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں یہودی قلیل تعداد میں رہے لیکن عیسائیوں کے ظلم و ستم اور ذلت و خواری والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔ انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے۔ ان حالات میں یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مکانی کی۔ جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے۔ ان کی بڑی تعداد امریکہ، برطانیہ اور کچھ فلسطین میں آگئے۔ بہرکیف حماس نے بھی غزہ کی پٹی کے عیسائی زائرین کی کرسمس کے موقع پر القدس اور مشرقی اُردن میں عباد گاہوں میں جانے پر اسرائیلی ریاست کی طرف سے عائدکردہ پابندیوں کو مذہبی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق حماس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیاہے کہ عیسائی برادری کے مذہبی تہوارکے موقع پر بیت لحم اور القدس میں عیسائی زائرین کو عبادت گاہوں میں جانے سے روکنا ان کے مذہبی امور میں مداخلت اور کھلی جارحیت ہے۔ غزہ میں فلسطین کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ گرجا گھر پر اسرائیلی حکومت کے حملے میں گرجا گھر کی پوری عمارت گر چکی ہے۔اس میں شہید و زخمی ہونے والوں کے علاوہ، دو سو سے زائد لوگ ابھی تک اس عمارت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے چئیرمین عبدالرزاق ساجد بتا رہے تھے کہ فلسطین میں ہماری مقامی ٹیم کے مطابق غزہ کے حالت اسقدر دل دوز اور خوفناک ہیں کہ لفظوں میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ میں خود دُنیا کے جنگ ذدہ علاقوں، شدید قدرتی آفات ذدہ علاقوں میں بھی گیا ہوں لیکن جس قدر بڑے اور برے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تباہی اور کربناک اموات غزہ کی پٹی میں ہو رہی ہیں اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے لیکن انسانی فلاح و بہبود کا ایک بین الاقوامی ادارہ ہونے کے ناطے ہم المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے بینر تلے غزہ کے عیسائیوں، مسلمانوں بلکہ ہر دین و عقیدے کے انسانوں کی ہر ممکن مدد کر بھی رہے ہیں اور آئندہ بھی اسی جذبے کے تحت انسانیت کی خدمت کرتے رہیں گے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ غزہ میں فریقین کے مابین جاری عارضی جنگ بندی کی باتیں مستقل امن پر منتج ہوں۔
یورپ سے سے مزید