• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم معاشرے کی عکاس ہوتی ہے، حکومت توجہ دے، عالمی اردو کانفرنس

کراچی(اسٹاف رپورٹر )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز پاکستانی فلم اور ڈرامہ کے مشاہیرپر اور بچوں کے ادب کے حوالے سے سیشنز ہوئے۔ فلم سے متعلق منعقدہ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ڈرامہ اور فلم کے نامور اداکاروں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا فلم معاشرے کی عکاس ہے موجودہ دور میں فلم انڈسٹری کی صورتحال خراب ہے حکومت اس انڈسٹری پر توجہ دے 70 کی دہائی تک فلم ترقی کررہی تھی وہی دور سنہرا تھا ۔دوسرا سیشن بچوں کے ادب کے مشاہیر کے عنوان پر تھا۔ اجلاس میں صوفی غلام مصطفی تبسم ،اسماعیل میرٹھی، مسعود احمد برکاتی،اشتیاق احمد اور اے حمید کی بچوں کے لیے ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔تفصیلات کے مطابق فلم اور ڈرامہ شرکاء گفتگو میں لیجنڈ ری اداکارمصطفی قریشی ، منورسعید کہانی نویس ہاشم ندیم ،اختر وقار عظیم اور عقیل عباس جعفری شامل تھے ۔تقریب کی نظامت کے فرائض عظمی الکریم نے انجام دیئے۔مصطفی قریشی نے کہا کہ میں نے اپنی اداکاری کا آغاز سب سے پہلے تھیٹر سے کیا اس کے بعد ریڈیوپرصداکاری کی اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن اور بعد ازاں فلموں میں کام کیا انہوں نے کہا کہ یہ المیہ ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری آج غیر فعال ہے جبکہ فلمیں دیکھنے والوں کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایجوکیٹ بھی کرتی ہے۔ منور سعید نے کہا کہ اداکاری کے جراثیم قدرتی طور پر ہوتے ہیں اسے صرف پالش کرکے چمکایا جاسکتا ہے اسی طرح کسی کو بھی زبردستی اداکارنہیں بنایا جاسکتا ۔انہوں نے کہا کہ تھیٹر میں کام کرنے سے اداکارمیں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ براہ راست پرفارم کرنے میں غلطی کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہوتی ۔ ہاشم ندیم نے کہا کہ میرا تعلق بلوچستان کے ایک چھوٹے سے علاقے مستونگ سے ہے۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ جتنا چھوٹا علاقہ ہوتا ہے وہاں کے بچے کا تخیل اتنا ہی بڑا ہوتا ہے ۔اگر مجھے کوئی شام اچھی لگتی ہے تو میں وہی شام لکھ دیتا ہوں ، میرا مقبول عام ڈرامہ ”پری زاد“ بھی اسی وجہ سے لکھا گیا کہ میرے اندر خود ایک کہانی بنتی رہی اور یہی کہانی میرے قلم سے ”پری زاد“ کی صورت ڈرامہ بنا۔ اختروقار عظیم نے کہا کہ آج کل جو کام ہورہا ہے وہ اچھا ہورہا ہے ۔عقیل عباس جعفری نے کہا کہ 70کی دہائی کے بعد فلم بینوں کے دیکھنے کا رجحان بھی تبدیل ہوگیا ہے ۔ جو آرٹ فلمیں 60کی دہائی میں ہمارے یہاں بن سکتی تھیں وہ فلمیں یہاں نہیں چلیں۔ اب فلم بین فلم کی طرف دوبارہ سے واپس آرہے ہیں جو خوش آئند عمل ہے۔اجلاس کی صدارت مہنا زرحمان نے کی۔تقریب کی نظامت علی حسن ساجد نے انجام دی اس موقع پر ان کی کتاب ”بڑھتے چلو“ کی رونمائی بھی کی گئی۔حنیف سحر نے علی حسن ساجد کی کتاب ”بڑھتے چلو“ اور ا ن کی شخصیت پر بھی اظہار خیال کیا جبکہ مصنف نے مہنازرحمان ،شہناز احد اورشمع زیدی کو اپنی کتابیں بھی پیش کیں صدرمحفل مہنازرحمان نے بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے بالخصوص اس موضوع پر تقریب کا انعقاد کرنے کے لیے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں بچوں کے ادب کو کم اہمیت مل رہی ہے۔ بچوں کے لیے جو ادیب لکھ رہے ہیں موجودہ دور میں انہیں بھی وہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے جو دی جانی چاہیے۔ ایسے حالات میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے جو تقاریب منعقد کی جاتی ہیں وہ دم غنیمت ہیں۔ ہمیں بچوں کے ادب کی ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ اسے لکھنے والے نئے قلم کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

اہم خبریں سے مزید