• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سردار پرویز محمود…ناروے
غزہ میں اسرائیلی بمباری نے بین الاقوامی سیاست اور راے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔ ایک سویلین آبادی پر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کے حملے کی تفصیل بہت بھیانک ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی کی ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا سینٹرز اس جنگ کی کوریج کس طرح کررہے ہیں۔ مغربی بلاک کے میڈیا چینلز کی اپنی حدود و قیود اور ضابطہ اخلاق ہے۔ سرکاری چینلز چونکہ عوام کی ٹیکسز پر چلتے ہیں چنانچہ اگر وہ سویلین آبادی کا قتل عام سرعام دکھانے لگیں توعوام کا اپنی حکومتی پا لیسیز اور سٹانس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ حکومتی پالیسیز اپنی سکیورٹی کی خاطر نیٹو کی پالیسی سے ہم آہنگ ہیں اور نیٹو کی پالیسیز آمریکہ کی طابع ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ امریکہ کی پالیسیز پرو اسرائیل کیوں ہیں۔ بقول مغربی بلاک کے اسرائیل کی ریاست ایک مارڈن جمہوری ریاست ہے۔ اور مارڈن جمہوری ریاست کو ایک کچی آبادی سے جس میں انتہا پسند اور نیم انتہا پسند مذہبی لوگ رہتے ہیں اور رنگ و نسل میں بھی مختلف ہیں وقت بے وقت راکٹ برساے جارہے ہیں۔ گویا یہ لوگ ایلینز کے کتنے قریب ترین ہیں۔ ایلینز کی اصطلاح ایک اجنبی مخلوق کے لیے بولی جاتی ہے جو شاید کسی سیارے پر رہتے ہوں گے۔ اور کسی دن شاید ان سے مارڈن ترقی یافتہ دنیا کے اعلی نسل کے لوگوں سے مڈ بھیڑ بھی ہوجاے۔ جب تک وہ کسی سیارے سے اتر کر نیچے نہیں آتے، جنگ و جدل کے لیے اپنے ہی سیارے پر ایلینز ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ مذہب سے دور دنیا کا پراگریسو طبقہ ایلینز کے بارے میں اپنی فلم اور ڈرامے اور لٹریچر میں قیاس آرائی کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ ناسا والوں کے پاس فوٹو اور وڈیوز کا ریکارڈ بھی موجود ہے جس میں فضا میں خاص جسامت کے یو۔اف۔اوز کی پروازیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ جن کی وضاحت کرنے سے ترقی یافتہ دنیا ابھی تک قاصرہے۔ پتہ نہیں ہمارے راڈارز نے بھی کچھ اس طرح کی پروازیں ریکارڈ کی ہیں کہ نہیں؟ فوڈ چین میں قدرتی طور پر ایک درجہ بندی ہے۔ فوڈ چین کے بہت نچلے درجے پر خون ریزی زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنے ہی سیارے کے ایلینز کا قتل عام پیس آف کیک ہے۔ نو پرابلم۔ ہم اس قتل عام کو ایک مختلف پیراے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ مغربی بلاک کے لیے ایک مقدس جنگ بن چکی ہے۔ خدانخواستہ شکست سارے نیٹو ممبرز کا ہاضمہ مستقل خراب کرسکتی ہے۔جس شدو مد سے مغربی بلاک یوکرین کی مدد کیے جارہا تھا اور روس کو جارح قرار دے رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ شاید اب روس کے لیے پسپائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جاے گا۔ مغربی میڈیا کم از کم یہی بتا رہا تھاکہ پوری دنیا روس کو جارح سمجھتی ہے۔ اور روس کو اس جنگ میں شکست ہوگی۔ اور بین الاقوامی عدالت انصاف نے روسی صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوے ہیں۔اور روس پر وار کرائیمز کے مقدمے چلیں گے اور یوکرین کی تباہی کا خرچہ بھی روس پر پڑے گا۔ چونکہ روس جابر اور ظالم ملک ہے۔ جس میں انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایران تو پہلے ہی باغی ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ پابندیوں کے شکنجے سخت سے سخت ہوتے رہتے ہیں۔ تو کیا ایران نے حماس کی تربیت کی یا مدد کی اور ایک مقدس، اور مارڈن جمہوری ریاست میں آزاد اور جمہوری باشندوں پر راکٹ برساے اور ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ پھر تو اسرائیل کا ری ایکشن پلان کے عین کے مطابق ہوا اور ایک سوئلین آبادی نے اس کی قیمت چکائی۔ بین الاقوامی راے عامہ کی توجہ یوکرین سے ذرا ہٹی اور بلیم گیم کے نشانے پر اسرائیل اور مغربی بلاک آگیا۔توجہ دوبارہ اسلام انتہا پسندی کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ امریکہ اور اتحادیوں کے انسانی حقوق اور انسانی آزادی کے بیانیے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ چین اور روس نے اطمینان کی سانس لی ہے۔ ہمارے خیال میں اس طرح کا قتل عام جو غزہ میں ہورہا ہے اس کے اثرات بہت منفی اور دور رس ہوتے ہیں۔بہرحال ورلڈ آرڈر میں ابھی تک بڑی تبدیلی کا انتظار ہے، ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم غزہ میں نہیں رہتے، بے شک اللہ بہتر جانتا ہے۔
یورپ سے سے مزید