آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال:۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ جس طرح ہم اپنے والدین کے لیے دعا مانگتے ہیں کہ:یا اللہ ، میرے والدین کو بھی ان ستر ہزار میں شامل فرما ،کیا وہ شامل ہوسکتے ہیں ؟ کیا یہ تعداد مکمل نہیں ہوئی صحابۂ کرام ؓاور اولیا کو، اگر دیکھا جائے تو ہم والدین کے لیے یہ کیسے کرسکتے ہیں؟ براہِ مہربانی راہنمائی فرمائیں؟
جواب:۔ بہت سی روایات میں ذکر آتا ہے کہ ستر ہزار اہلِ ایمان جنت میں بغیر حساب کتاب کے داخل ہوں گے، ان میں سے سب سے مفصل حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے، جو صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور ديگر کتبِ حدیث میں موجود ہے، صحیح بخاری کی روایت کا ترجمہ درج ذیل ہے: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں ایک ایک، دو دو نبی اور ان کے ساتھ ان کے ماننے والے گزرتے رہے اور بعض نبی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ کہا گیا : یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ پھر کہا گیا کہ کناروں کی طرف دیکھو، میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے جو کناروں پر چھائی ہوئی ہے۔
پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو،ادھر دیکھو ، آسمان کے مختلف کناروں میں، میں نے دیکھا کہ جماعت ہے جو تمام افق پر چھائی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد آپ (اپنے حجرہ میں) تشریف لے گئے اور کچھ تفصیل نہیں فرمائی، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کے رسول ﷺکی اتباع کی ہے، اس لیے ہم ہی (صحابہؓ) وہ لوگ ہیں یا ہماری وہ اولاد ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے، کیوںکہ ہم جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ باتیں جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئیں تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں دیکھتے اور داغ کر علاج نہیں کرتے ، بلکہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصنؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد دوسرے صحابیؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں بھی ان میں ہوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے۔" (صحیح بخاری، محمد بن اسماعيل بخاری، الطبعۃ السلطانيۃ، کتاب الطب، باب من اکتویٰ أو کوی غيرہ وفضل من لم يکتو، رقم الحديث: ٥٧٠٥، ٧/١٢٦)شارحينِ حديث کے نزدیک "ستر ہزار " کے عدد کے دو معنی ہیں:1.یہ عدد حصر (محدود کرنے) کے لیے ہے، اور صرف ستر ہزار لوگ جنت میں اس صفت کے ساتھ جائیں گے۔ 2. یہ عدد حصر کے لیے نہیں، بلکہ کثرت بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ملاحظہ ہو: (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، لملا علی القاری، دار الفکر -بیروت، الطبعۃ الأولیٰ، ١٤٢٢هـ، ٨/٣٥٣٠)علامہ عبد الرؤوف مناوی نےحدیث کی دیگر روایات کو پیش نظر رکھ کر دوسری وجہ کو راجح قرار دیا ہے۔
ملاحظہ کیجیے: (فيض القدير شرح الجامع الصغير، محمد عبد الرؤوف المناوی، المکتبۃ التجاريۃ الکبریٰ، الطبعۃ الأولیٰ، ٤/٩٢)مذکورہ بالا تشریح سے یہ بات واضح ہوئی کہ صحابہ کرام ؓ اور اولیاء اللہ کے علاوہ دیگر مسلمان جو ان صفات کے حامل ہوں، وہ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں، لہٰذا ہم اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے یہ دعا کر سکتے ہیں۔