• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں محکمہ مال کی تاریخ اور اس نظام کا اجمالی سا جائزہ لیتے ہوئے عرض کیا گیا کہ یہ نظام انگریز کے دور میں بہترین اور 1964-65ء تک نسبتاً بہتر چلتا رہا ، پھر دما دم مست شروع ہوا۔ بنیادی طور پر پٹوار علم بھی ہے اور کسب بھی ، جو صرف پڑھنے سے نہیں ، پوری دلچسپی کے ساتھ کرنے سے آتا ہے ۔ دما دم مست شروع ہونے سے قبل کچھ ایسا ہی تھا ۔ میرٹ پر پٹواری ، تحصیلدار بھرتی ہوتے تھے ، جنھیں اس نظام پر عبور حاصل تھا ۔ نیز اعلیٰ افسران ڈپٹی کمشنر، کمشنر تک محکمہ مال کی باریکیوں سے آگاہ تھے اور دوران پڑتال وغیرہ ریکارڈ کی غلطیاں پکڑ لیتے تھے ،لہذا پٹواری دلچسپی اور محنت سے کام کرتے تھے ۔ پھر یار لوگوں نے اس نظام کا بیڑہ غرق کرنے کی ٹھانی تو اس کارِ خیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ پٹواری سفارشی بھرتی ہونے لگے اور کام سے لا علمی ،عدم دلچسپی اور نالائقی کی وجہ سے غیرذمہ دار لوگ ان کے بطور پرائیویٹ منشی کام کرنے لگے تو ریکارڈ کی صحت برقرار نہ رہ سکی ۔ ادھر نگران افسران میں بھی احساس ذمہ داری اور اہلیت کی جگہ دوسری دلچسپیوں نے لے لی ، جس سے صورتحال یہاں تک پہنچی کہ ریکارڈ اور محکمہ کی عزت خاک میں مل گئی اور ’’پٹوارکلچر‘‘ وجود میں آیا۔ چونکہ بد دیانتی کے وسائل اور مواقع اس محکمہ میں زیادہ تھے ، لہٰذا کارکردگی کو بھاڑ میں جھونک کر اسی کو فوکس کرلیا گیا ۔ ریکارڈ مال میں ہیر پھیر، جعلی اندراجات کا رحجان فروغ پایا تو ایک ستم ظریف سا لطیفہ بھی مشہور ہوا کہ کسی پٹواری کو دیکھ کر کتا بھونکا تو اس نے تاسف سے کہا کہ کاش تمہارے نام چند مرلے ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ تم مجھے کیسے بھونکتے ہو؟
زمین کی خریدوفروخت میں پٹواری بطور دلال کام کرنے لگے اور اس نیک کمائی کا حصہ کسی نہ کسی صورت اوپر تک جانے لگا۔ پٹواری کو حکمرانوں اور افسروں نے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنا لیا اور سرکاری دوروں ، جلسوں کے انتظامات کے علاوہ اپنے افسران کے کچن اور دیگر اللوں تللوں کو رواں رکھنے کا فریضہ بھی پٹواری کے کندھے پر آ پڑا ۔ پٹواری خود بھی کھانے لگے اور دوسروں کے پیٹ بھی بھرنے لگے ، نوبت بہ ایں جا رسید کہ جس قدر عظیم ریکارڈ تھا اور مالکان کے حقوق کا محافظ تھا ، اب اسی قدر غلط ہوگیا ہے ۔ اس کی ذمہ داری صرف پٹواری پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ضلعی افسران اور حکمران اصل ذمہ دارہیں ۔
پنجاب میں ریکارڈ مال کی حالیہ کمپیوٹرائزیشن کے سلسلے میں سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اسے اغلاط کی درستی بذریعہ فرد بدرات کے بعد کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے ۔ تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں اور اکثر اغلاط کی درستی ریکارڈ مصدقہ بندوبستی1940ء تک درست کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ جلد کام مکمل کرنے کے سخت احکامات اور روایتی نااہلی کے سبب اکثر جگہوں پر پنجابی کے محاورے کے مطابق ’’کتے پہ کتا مارا جارہا ہے ‘‘ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے پہلے اس کی حقیقی صحت کے لئے ضروری تھا کہ نیا بندوبست اراضی اور اشتمال اراضی کیا جاتا ۔ آخری بندوبست اراضی 1940ء میں ہو اتھا اور چالیس سال بعد 1980ء میں نیا بندوبست اراضی ہونا تھا ،جو آج تک نہیں ہو سکا۔ بندوبست اراضی میں ہر ضلع کی زمین نئے سرے سے پیمائش کی جاتی ہے اور اس دوران اقسام زمین اور دیگر تبدیلیوں کی روشنی میں نیا ریکارڈ مال تحریر کیا جاتا ہے ۔ اشتمال اراضی کسی بھی ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے نصف سے زائد مالکان یا ان مالکان جن کا رقبہ کل موضع کے نصف سے زائد ہو کی خواہش پر کیا جاتا ہے ۔ْ مالکان کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور اکثر مشترکہ ملکیت کی بجائے جس مالک کا جس خسرہ پر قبضہ ہو ، مطابق حصہ الگ الگ اندراج کیا جاتا ہے ۔ اشتمال اراضی بھی بہت کم مواضعات کا ہوا ہے جس کے طفیل مشترکہ ملکیت کے بے شمار مقدمات دیوانی و مال عدالتوں پر بوجھ ہیں ۔
پنجاب میں دو اقسام کے علاقہ جات کا ریونیو نظام الگ الگ ہے ۔ اکثر اضلاع نہری ہیں اور وہاں مربع بندی ، کیلہ بندی کا عمل رائج ہے ۔ ان اضلاع کے رجسٹر حقداران زمین وغیرہ نسبتاً صاف اور زود فہم ہیں اور انہیں کمپیوٹرائزڈ کرنا بھی آسان ہے ۔ کیلہ 8کنال اور مربع 25ایکڑ کا مقرر ہے اور ان پڑھ مالکان کو بھی اپنے مربع ، کیلہ نمبر کا علم ہوتا ہے ۔ بارانی اضلاع کا ریکارڈ پرانا کشتوار شکل کا چلا کا آ رہا ہے ، جہاں ایک نمبر خسرہ (جو چند مرلے کا بھی ہو سکتا ہے اور کئی سو کنال کا بھی ) میں کئی مالکان الگ الگ حصوں اور حقوق کے مالک ہوتے ہیں ۔ ان اضلاع میں مشترکہ ملکیت کے سبب حصص کم یا زیادہ بن جاتے ہیں ۔ کسی جگہ کو فروخت کر تے وقت رقبہ پورا نہ ہوتا ہو تو دوسری مشترکہ کھیوٹ سے حصہ ڈال کر پورا کیا جاتا ہے ۔ کمپیوٹرائزیشن کے بعد جب وہی اراضی کسی دوسرے کو منتقل کرنے کی ضرورت ہو گی تو عملہ کیسے ڈھونڈ کر عمل کرے گا؟ ایسی صورت میں یہ دعویٰ کہ کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ مثالی ہوگا، کسی صورت ثمر بار نہ ہوگا۔
ایک کھیوٹ کے مالکان کی تعداد بعض اوقات سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ مالکان کے کل حصوں ،نمبرات خسرہ اور کھتونی کا میزان متعلقہ کھیوٹ کے کل رقبہ کے برابر ہونا ضروری ہے، جو ریکارڈ کی غلطیوں کی بنا پر اکثر پورا نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک کھیوٹ کا رقبہ 100کنال ہے اور مالکان کی تعداد 50ہے ۔ مالکان کے کل رقبہ کا میزان 100کنال سے کم یا زیادہ برآمد ہوتا ہے ، جس سے واضح ہے کہ حصص غلط ہیں ، ان کی صحت کے لئے سابقہ کاغذات کی جانچ پڑتال کرکے درستی ممکن ہوتی ہے ۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان غلط اندراجات سے انتقال منظور ہو گئے ۔ ان کی صحت پیچیدہ عمل ہے جس کے لئے کم از کم ڈسٹرکٹ کلکٹر کے احکامات درکار ہوتے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کھیوٹ متعلقہ کے کل رقبہ کے مرلے بنا کر حصص رقبہ درج کیا جاتا ہے ۔ مثلاً 3مرلے 25کنال کی کھیوٹ کے کل 503مرلے بنتے ہیں ۔ اب مالکان کے حصص مرلوں میں شمار کرکے ایک مالک زید کے 1/8حصہ کو 63/503حصہ بقدر 3مرلے 3کنال درج کرتے وقت اگر میزان درست نہ ہو تو از خود مالکان کے مرلے کم یا زیادہ لکھ کر عمل صحت کے طور پر 1/1پورا کردیا جاتا ہے ،جو انتہائی خطرناک طریقہ ہے اور مالکان کے حقوق کم یا زیادہ درج ہو جاتے ہیں اور یوں جھگڑے اورمقدمات کی صورتحال جنم لیتی ہے ۔ آج جب نظام کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے تو جہاں غلط درج شدہ حصہ جو1/1کے برابر نہیں ہوتا سسٹم فوراً اس کی نشاندہی کر دیتا ہے ۔ کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ ان غلطیوں کی فہرست عملہ مال کو بھیجتا ہے، جو انہیں درست کر کے واپس کرتا ہے ۔ تاہم بارِ دگر عرض ہے کہ پٹواریوں کے نام جلد کام مکمل کرنے کی سخت حکومتی ہدایات اور روایتی نا اہلی کی بنا پر درستی کا یہ عمل اکثر جگہوں پر درج بالا طریقے یعنی بذریعہ ’’تُھک تھگڑی‘‘ ہی کیا جا رہا ہے ، جس سے مستقبل میں کئی پیچیدگیاں متوقع ہیں ۔
ریکارڈ مال کی کمپیوٹرائزیشن سے قبل یہ بھی ضروری تھا کہ تقسیم کے بعد ہندوئوں کی متروکہ املاک کی الاٹمنٹ میں سیٹلمنٹ افسران کی طرف سے جو گھپلے روا رکھے گئے ،ان کی درستی بھی کی جاتی ۔ کھربوں کی سرکاری اراضی اور بے نوائوں کی زمینوں پر قبضہ مافیا نے ناجائز قابض ہوکر ان کی خرید و فروخت،پلازے،مکان، مساجد وغیرہ تعمیر کر کے بے پناہ منافع اور ثواب کمایا ہے ۔ نیز بے شمار افغان مہاجرین کو ملکی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے قیمتی جائیدادوں کا مالک بنا دیا گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عرض بالا جائیدادوں کو واگزار کرائے بغیر اور ان کا ریکارڈ درست کیے بغیر انہیں کیسے کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے اور اس کے کیا خوشگوار نتائج نکلیں گے ؟ کمپیوٹر بذات خود ایک اعلیٰ و ارفع ایجاد ہے ،مگر ہم اغیار کی ہر نئی ایجاد کا انوکھا استعمال ’’ایجاد‘‘ کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ محکمہ مال کی کمپیوٹرائزیشن کے سلسلے میں میاں شہباز شریف کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں لیکن قبل ازیں جو ’’نادرا‘‘ کا کمپیوٹرائزڈ محکمہ بنایا گیا ، اس کا کیا حشر ہوا ؟ بے شمار افغان مہاجرین نادرا کے طفیل غیر قانونی طریقے سے جعلی شناختی کارڈ بنوا کر ہی تو جائیدادوں کے مالک بنے ہیں ۔ کون سا نادرا سنٹر ہے جہاں رشوت ، دو نمبری ،محکمانہ غنڈ ہ گردی اور عوام کی تذلیل کے روایتی طریقے کار فرما نہیں ؟ یقیناً ورلڈ بینک کے 14ارب روپے کے قرض سے دسمبر 2014ء تک تمام صوبے کے 36اضلاع کا ریکارڈ مال کمپیوٹرائزڈ کردیا جائے گامگر ازراہِ کرم ’’سسٹم‘‘ کو نہیں چھیڑا گیا ۔ معاف کیجئے اس طرح تو ’’پٹوارکلچر‘‘ سے عوام کو یونہی نجات ملے گی ،جیسے نادرا نے انہیں پرانے ذلت آمیز ’’شناختی کارڈسسٹم‘‘ سے دلائی ہے یا پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پڑھے لکھے نوجوان انسپکٹر بھرتی کر کے تھانہ کلچر سے ان کی گلو خلاصی کرائی گئی ہے ۔ تمام تر حسن ظن رکھنے کے باوجود عرض ہے کہ جب بدون بندوبست و اشتمال اراضی اور ریکارڈ کی پلید شدہ مٹی کو پاک کیے بغیر LRMIS(لینڈ ریکارڈ منیجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم) کا آغاز کر کے بد عنوانی کے تمام چور دروازے کھلے رکھے جارہے ہیں تو کیا عجب کہ کل SCO’’پٹواری ‘‘ اور ADLR’’تحصیلدار‘‘ بن بیٹھے۔
تازہ ترین